Ustad-e-Zaman >> Aina-e-Qayamat Blog P 5



سرِانور کی کرامات

    اب یہ قافلہ اورشہیدوں کے سر شام کوروانہ کئے گئے ۔سرمبارک نیزہ پر تھا ،راہ میں ایک شخص قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔ جب اس آیت پر پہنچا

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا

(پ۱۵،الکھف:۹)

ترجمہ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ میں اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
    سرمبارک نے فرمایا : ''یَاتَالِیَ الْقُرْاٰنَ اَعْجَبُ مِنْ قِصَّۃِ اَصْحَابِ الْکَھْفِ قَتْلِیْ وَحَمْلِیْ'' اے قرآن پڑھنے والے! اصحاب کہف کے قصے سے زیادہ عجیب ہے میرا قتل کرنا اورسرنیزے پر لئے پھرنا۔ظالم جہاں ٹھہرتے سرمبارک کو نیزے پررکھ کر پہرادیتے۔ (شرح الصدور،باب زیارۃ القبورو علم الموتیٰ...الخ،ص۲۱۲)

    ایک راہب نصرانی نے دیکھا تو پوچھا ،بتایا ،کہا: ''تم برے لوگ ہو ،کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے ۔''دنیا کے کتوں نے قبول کر لیا۔راہب نے سر مبارک لےکر دھویا ،خوشبو لگائی ،رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور بلند ہوتا پایا ۔راہب نے وہ رات رو کر کاٹی ،صبح اسلام لایا اور گرجا اور اس کا مال متاع چھوڑ کر اہلِ بيت کی خدمت میں عمر گزار دی۔
    صبح ان خبیثوں نے اشرفیوں کے توڑے آپس میں حصے کرنے کو کھولے ، سب

اشرفیاں ٹھیکریاں ہو گئی تھیں ،ان کے ایک طرف لکھاتھا : وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (پ۱۳،ابراھیم:۴۲)

ترجمہ کنز الایمان: اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کاموں سے ۔
    اور دوسری طرف لکھا تھا: وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ (پ۱۹،الشعرآء:۲۲۷)

ترجمہ کنز الایمان:اور جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔

مزید واقعات

    جب سرِ مبارک امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا، اس ظالم اظلم یزید پلیدکے پاس پہنچا ،بید سے چھونے لگا ، نصرانی بادشاہ روم کا سفیر موجود تھا ،حیران ہو کر بولاکہ'' ہمارے یہاں ایک جزیرے کے گرجا میں عیسیٰ علیہ السلام کے گدھے کاسم ہے ،ہم ہرسال دور دور سے اس کی طرف حج کی طرح جاتے اور منتیں مانتے ہیں اور اس کی ایسی تعظیم کرتے ہیں جیسے تم اپنے کعبہ کی ،تم نے اپنے نبی کے بیٹے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ یہ سلوک کیا،میں گواہی دیتاہوں کہ تم لوگ باطل پرہو۔''
    ایک یہودی نے کہا:'' مجھ میں اور داؤد علیہ السلام میں سترپشت کا فاصلہ ہے یہود میری تعظیم کرتے ہیں اورتم نے خود اپنے نبی کے بیٹےصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقتل کیا!۔
    پھرشام سے یہ قافلہ مدینہ طیبہ کو روانہ کیا گیا ،مدینہ میں پہنچنے کی تاریخ قیامت کا سامان اپنے ساتھ لائی ۔گھر گھر میں کہرام تھا ،درودیوار سے دل دکھانے اورکلیجے میں گھاؤڈالنے والی مصیبت ٹپکی پڑتی تھی ۔

(صحیح البخاری،ج۱،ص۶۵۶،حدیث۲۰۰۴)

   بعدِشہادت آسمان سے خون برسا ۔نصرہ ازدیہ کہتی ہیں کہ'' ہم صبح کو اٹھے توتمام برتن خون سے بھرے پائے...آسمان اس قدر تاریک ہوا کہ دن کو ستارے نظر آئے ... ملک ِشام میں جو پتھر اٹھاتے، اس کے نیچے تازہ خون پاتے ۔''
    ایک روایت میں ہے سات دن آسمان اس قدر تاریک ہوا کہ دیواریں شہاب کی رنگی ہوئی چادریں معلوم ہوتیں ....ستاروں میں تلاطم نظر آتا ....ایک ستارہ دوسرے سے ٹکراتا ۔
    ابو سعید فرماتے ہیں:'' دنیا بھر میں جو پتھر اٹھایا اس کے نیچے تازہ خون پایا .... آسمان سے خون برسا....کپڑے پھٹتے پھٹ گئے ،مگر اس کا اثرنہ جانا تھا نہ گیا .... خراسان وشام وکوفہ میں گھروں اوردیواروں پر خون ہی خون تھا ۔''
    علماء فرماتے ہیں '' یہ تیز سرخی جوشفق کے ساتھ دیکھی جاتی ہے، شہادت مبارک سے پہلے نہ تھی ،چھ مہینے تک آسمان کے کنارے سرخ رہے پھر یہ سرخی نمودارہوئی ۔''

قتل امام حسین میں شریک بدبختوں کا عبرت ناک انجام

    ابو الشیخ نے روایت کی: ''کچھ لوگ بیٹھے ذکر کر رہے تھے کہ جس نے امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل میں کچھ اعانت کی کسی نہ کسی بلا میں ضرور مبتلا ہوا ۔''ایک بڈھے نے اپنے نفسِ ناپاک کی نسبت کہا کہ ''اسے توکچھ نہ ہوا ۔''چراغ کی بتی سنبھالی، آگ نے اس شقی کو لیا ،آگ آگ چلاتا فرات میں کود پڑا ،مگر وہ آ گ ہی نہ بجھی، یہاں تک کہ آگ میں پہنچا ۔
    منصور بن عمار نے روایت کی ''امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل ایسی پیاس میں مبتلاہوئے کہ ایک ایک مشک چڑھا جاتے اور پیاس کم نہ ہوتی ۔''

    سدمی کہتے ہیں کہ ''ایک شخص نے کربلامیں میری دعوت کی،لوگوں نے آپس میں ذکر کیا کہ ''جس جس نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون میں شرکت کی بری موت مرا ۔'' میزبان نے اسے جھٹلایا اور کہا:'' وہ شخص بھی اسی لشکرمیں تھا۔''پچھلی رات چراغ درست کرنے اٹھا،آگ نے جست کر کے اس کے بدن کو لیا ،خداکی قسم! میں نے دیکھا کہ اس کا بدن کوئلہ ہو گیاتھا۔''
    امام زہری فرماتے ہیں:'' ان میں کوئی مارا گیا ،کوئی اندھا ہو کر مرا ،کسی کا منہ کالا ہو گیا ۔''
    امام واقدی فرماتے ہیں:''ایک بڈھا وقتِ شہادتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھا شریک نہ ہواتھا ،اندھا ہو گیا ۔سبب پوچھا،کہا:'' اس نے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا ،آستینیں چڑھائے ،دستِ اقدس میں ننگی تلوار لئے ،سامنے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دس قاتل ذبح کئے ہوئے پڑے ہیں ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علی والہ وسلم نے اس بڈھے پر غضب فرمایا کہ'' تو نے موجود ہو کر اس گروہ کو بڑھایا؟'' اور خونِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک سلائی آنکھوں میں لگادی ،اٹھا تو اندھا تھا ۔''
    سبط ابن الجوزی روایت کرتے ہیں:'' جس شخص نے سرِ مبارک ِامام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر لٹکایا تھا ،چند روز بعد اس کامنہ کوئلے سے زیادہ کالاہو گیا۔ لوگوں نے کہا:''تیرا چہرہ تو عرب بھر میں تروتازہ تھا یہ کیا ماجراہے ؟''کہا:''جب سے وہ سر اٹھایا ہے ،ہر رات دو شخص آتے اور بازو پکڑکر بھڑکتی آگ پر لے جا کر دھکا دیتے ہیں ۔سرجھکتاہے ،آگ چہرے کو مارتی ہے۔''پھرنہایت برے حالوں مرگیا ۔''
    ایک بڈھے نے حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ سامنے

ایک طشت میں خون رکھاہے اور لوگ پیش کئے جاتے ہیں ،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اس خون کا دھبا لگا دیتے ہیں، جب اس کی باری آئی ،اس نے عرض کی:'' میں تو موجود نہ تھا ۔''فرمایا:'' دل سے تو چاہاتھا۔''پھر انگشتِ مبارک سے اس کی طرف اشارہ کیا صبح کو اندھا اٹھا ۔
    حاکم نے روایت کی کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے جبریل نے عرض کی: ''اللہ تعالیٰ فرما تاہے:'' میں نے یحييٰ بن زکریا کے بدلے سترہزار قتل کئے اور حسین کے عوض میں ستر ہزار اور سترہزار قتل فرماؤں گا ۔''

 (المستد رک،کتاب توا ریخ المتقدمین...الخ،قصۃ قتل یحیٰعلیہ السلام،الحدیث۴۲۰۸،ج۳،ص۴۸۵)

    الحمد للہ! اللہ عزوجل نے ابن زیاد خبیث سے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ لے لیا ۔جب وہ مردود ماراگیا ،اس کا سرمع اس کے ساتھیوں کے سروں کے لا کررکھا گیا ۔لوگوں کا ہجوم تھا، غل پڑ گیا ''آیا آیا ۔''راوی کہتے ہیں:'' میں نے دیکھا کہ ایک سانپ آرہا ہے، سب سروں کے بیچ میں ہوتاہوا ابن زیاد کے ناپاک سر تک پہنچا ۔ایک نتھنے میں سے گھس کر دوسرے نتھنے میں سے نکلا اورچلا گیا۔پھر غل پڑا آیا آیا،پھر وہی سانپ آیا اوریوں ہی کیا ،کئی بار ایسا ہی ہوا ۔''
    منصور کہتے ہیں:'' میں نے شام میں ایک شخص دیکھا، اس کامنہ سؤر کامنہ تھا، سبب پوچھا، کہا:''وہ مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوران کی پاک اولاد پر لعنت کیا کرتا ۔'' ایک رات حضور سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ،امامِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خبیث کی شکایت کی ،حضور علیہ الصلاۃو السلام نے اس پر لعنت فرمائی اور منہ پر تھوک دیا، چہرہ سؤرکا ہوگیا ۔ '' وَالْعِیَاذُ بِاللہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ



عاشوراء کے فضائل

'' یاشہیدِ کربلا ہو دور ہر رنج وبلا '' کے پچّيس حُرُوف کی نسبت سے عاشوراء کی خصوصیات

 (۱) 10 محرم الحرام عاشوراء کے روز حضرت سیِّدُنا آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی توبہ قبول کی گئی۔(۲) اسی دن انہیں پیدا کیا گیا۔ (۳) اسی دن انہیں جنَّت میں داخِل کیا گیا۔ (۴)اسی دن عرش(۵) کُرسی (۶)آسمان (۷)زمین (۸)سورج (۹) چاند (۱۰) ستارے اور(۱۱) جنَّت پیدا کئے گئے (۱۲) اسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا ہوئے(۱۳)اسی دن انہیں آگ سے نَجات ملی۔ (۱۴)اسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی اُمّت کو نَجات ملی اور فرعون اپنی قوم سَمیت غَرَق ہوا(۱۵) حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا کئے گئے(۱۶) اسی دن انہیں آسمانوں کی طرف اٹھا یا گیا(۱۷) اسی د ن حضرتِ سیِّدُنانوح علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کشتی کوہِ جُودی پر ٹھہری(۱۸) اسی دن حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کومُلکِ عظیم عطا کیا گیا(۱۹) اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونُس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے (۲۰) اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بِینائی کا ضُعف دور ہوا(۲۱) اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیٰ نبینا وعلیہ

الصلوٰۃ والسلام گہرے کُنویں سے نکالے گئے(۲۲) اسی د ن حضرتِ سیِّدُنا ایوب علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکلیف رَفع کی گئی (۲۳)آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارِش اسی دن نازل ہوئی اور(۲۴) اسی دن کا روزہ اُمّتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ اس دن کا روزہ ماہِ رَمَضانُ المُبارَک سے پہلے فرض تھا پھرمَنسوخ کر دیا گیا(مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۱۱)(۲۵)امامُ الہُمام،امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ تِشنہ کام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بمع شہزادگان و رُفقاء تین دن بھوکا رکھنے کے بعد اسی عاشوراء کے روز دشتِ کربلا میں انتہائی سفّاکی کے ساتھ شہید کیا گیا۔

'' یا حُسین '' کے چھ حُرُوف کی نسبت سے مُحرَّمُ الحرام
اورعاشُورا ء کے روزوں کے 6فضائل

مدینہ۱    حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے رِوایَت ہے حُضُورِ اکرم، نُور مُجَسَّم، رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:''رَمَضان کے بعدمُحرَّم کا روزہ افضل ہے اورفَر ض کے بعد افضل نَماز صلٰو ۃُ اللَّیل(یعنی رات کے نوافل)ہے۔''

 (صحیح مسلم،ص۸۹۱،حدیث۱۱۶۳)

مدینہ۲    طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب ، حبیبِ لبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے :'' مُحَرَّم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہے۔''

         (طَبَرانی فی الصغير،ج۲،ص۸۷،حدیث۱۵۸۰)

یوم موسیٰ علیہ السلام

مدینہ۳    حضرتِ سیِّدُناعبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ارشاد ِگرامی ہے ، رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم جب مدینۃُ المنوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا میں تشریف لائے، یَہُو د کو عاشورا ء کے دن روزہ دار پایا توارشاد فرمایا:''یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟'' عَر ض کی، یہ عظمت والا دن ہے کہ اِسمیں موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام اور اُن کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے نَجات دی اور فرعون اوراُس کی قوم کو ڈَبودیا ۔ لہٰذا موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام نے بطورِشکرانہ اِس دن کا روزہ رکھا، توہم بھی روز ہ رکھتے ہیں۔ارشاد فرمایا: ''موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام کی مُوافَقَت کرنے میں بہ نسبت تمھارے ہم زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں۔ ''تو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خُود بھی روزہ رکھا اور اِس کا حُکْم بھی فرمایا۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ عَزَّوَجَلَّ کوئی خاص نِعمت عطا فرمائے اُس کی یادگار قائم کرنا دُرُست و محبوب ہے کہ اس طرح اُس نِعمتِ عُظمٰی کی یاد تازہ ہوگی اورا ُسکا شکر ادا کرنے کا سبب بھی ہوگا۔ خود قُراٰنِ عظیم میں ارشاد فرمایا :  وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِ ؕ

(پ ۱۳،ابراھیم :۵)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور انھیں اﷲ کے دن یاددلا۔
    صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اَیَّا مِ اللہ سے وہ دن مُراد ہیں جن میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ا پنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَنّ و سَلْویٰ اتارنے کا دن، حضر ت سیِّدُنا موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ ان اَیاّم میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیِّدِ عالَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت ومِعراج کے دن ہیں ان کی یا د قائم کرنا بھی اِس آیت کے حکم میں داخِل ہے۔

                     (مُلخصاً خزائن العرفان، ص۴۰۹)


عاشُوراء کا روزہ

مدینہ۴     حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں،''میں نے سلطانِ دوجہان، شَہَنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی دن کے روز ہ کو اور دن پر فضیلت دیکر جُستُجو فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشوراء کا دن اور یہ کہ رَمَضان کا مہینہ۔''

 (صحیح البخاری،ج۱،ص۶۵۷،حدیث۲۰۰۶)

یہودیّوں کی مُخالَفَت کرو

مدینہ۵    نبیِّ رَحمت ،شفیعِ امّت،شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی مخالَفَت کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔''

         (مسند امام احمد،ج۱،ص۵۱۸، حدیث۲۱۵۴)

    عاشوراء کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نویں یا گیارہویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔
مدینہ۶ حضرتِ سیِّدُنا ابوقَتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت ہے، رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: ''مجھے اللہ پر گُمان ہے کہ عاشورا ء کا روزہ ا یک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔ '' (صحیح مسلم،ص۵۹۰،حدیث۱۱۶۲)

سارا سال آنکھیں دُکھیں نہ بیمار ہو

    مُفَسّرِشہیر حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:''مُحرم کی نویں اور دسویں کو روزہ رکھے تو بَہُت ثواب پائے گا ۔ بال بچّوں کیلئے دسویں محرم کو خوب اچّھے اچّھے کھانے پکائے تواِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سال بھر تک گھر میں بَرکت رہے گی۔ بہتر ہے کہ کِھچڑا پکا کر حضرِت شہید کربلا سیِّدُناامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے بَہُت مُجرّب (یعنی مؤثر وآزمودہ)ہے۔ اسی تاریخ یعنی ۱۰ مُحرم الحرام کو غسل کرے تو تمام سال اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آبِ زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے۔

 ( تفسیر روح البیان،ج۴،ص۱۴۲،کوئٹہ۔اسلامی زندگی،ص۹۳)

    سرورِکائنات،شاہ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص یومِ عاشوراء اثمد سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اسکی آنکھیں کبھی بھی نہ دکھیں گی۔

 (شعب الایمان،الحدیث۳۷۹۷،ج۳،ص۳۶۷۔فیضان سنت،ص۱۳۴۷تا۱۳۵۴)


یکم محرم الحرام کو بِسْمِ اللہِ الرَحْمٰنِ الرَحِیْمِ130بار لکھ کر (یا لکھوا کر)جوکوئی اپنے پاس رکھے(یا پلاسٹک کوٹنگ کرواکر کپڑے،ریگزین یاچمڑے میں سلوا کرپہن لے)ان شآء اللہ عزوجل عمر بھر اس کو یا اس کے گھر میں کسی کو کوئی برائی نہ پہنچے۔

         (شمس المعارف مترجم،ص۷۳۔فیضان سنت،ص۱۳۶)


ماخذو مراجع

1 ۔۔۔    سنن الترمذی                      ۔۔۔۔۔۔     دار الفکر بیروت
۲ ۔۔۔    مجمع الزوائد                      ۔۔۔۔۔۔     دار الفکر بیروت
۳ ۔۔۔    صحیح البخاری                            ۔۔۔۔۔۔     دار الکتب العلمیۃ بیروت
۴ ۔۔۔    المعجم الکبیر                     ۔۔۔۔۔۔     دار احیاء التراث العربی بیروت
۵ ۔۔۔    حلیۃ الاولیاء                      ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃ بیروت
۶ ۔۔۔    الکامل فی التاریخ                         ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃ بیروت
۷ ۔۔۔    مکاشفۃ القلوب                             ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃ بیروت
۸ ۔۔۔    شرح الصدور                    ۔۔۔۔۔۔     مرکز اہل السنۃ برکات رضا ہند
۹ ۔۔۔    ملفوظات اعلی حضرت                 ۔۔۔۔۔۔     مشتاق بک ڈپو لاہور
۱۰ ۔۔۔  تاریخ بغداد                        ۔۔۔۔۔۔     دار الکتب العلمیۃ بیروت
۱۱ ۔۔۔  تفسیر خزائن العرفان           ۔۔۔۔۔۔     ضیاء القرآن کراچی
۱۲ ۔۔۔  مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح          ۔۔۔۔۔۔     ضیاء القرآن کراچی
۱۳ ۔۔۔  الترغیب و الترہیب                        ۔۔۔۔۔۔     دارالفکر بیروت
۱۴ ۔۔۔  منبھات ابن حجر عسقلانی              ۔۔۔۔۔۔     نوری کتب خانہ
۱۵ ۔۔۔  شرح الصدور بشرح حال الموتیٰ والقبور۔۔۔۔۔۔          مرکز اہلسنت برکات رضا ہند
۱۶ ۔۔۔  الطبقات الکبریٰ                           ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃبیروت
۱۷ ۔۔۔  کشف المحجوب(فارسی)                ۔۔۔۔۔۔     نوائے وقت پرنڑز لاہور
۱۸ ۔۔۔  مکاشفۃ القلوب                             ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃبیروت
۱۹ ۔۔۔  مطالع المسرات                            ۔۔۔۔۔۔     نوریہ رضویہ سردار آباد(فیصل آباد)
۲۰ ۔۔۔  الرسالۃ القشیریۃ                           ۔۔۔۔۔۔     دارالکتب العلمیۃبیروت
۲۱ ۔۔۔  گلستان سعدی


0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More