Ustad-e-Zaman >> Aina-e-Qayamat Blog P 1


الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی الک واصحابک یاحبیب اللہ

سردارِ نوجوانانِ جنت امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے سلسلے میں مستند روایات پر مشتمل تحریر

نام کتاب : آئینہ قیامت
مؤلف : حضرت علامہ مولانا حسن رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ

پیش لفظ

اس مادر گیتی پر بلا شبہ کروڑہاانسانوں نے جنم لیااور بالآخر موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کا نام ونشان تک مٹادیا۔لیکن جنہوں نے دین اسلام کی بقاوسربلندی کے لیے اپنے جان ومال اور اولاد کی قربانیاں دیں اورجن کے دلی جذبات اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر ان کے تذکرے سنہری حروف سے کندہ ہیں۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتاہے، دلوں پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ان کے پر سوز واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،بالخصوص واقعہ کربلا نہایت رقت وسوز کے ساتھ جذبہ ایثار وقربانی کوابھارتاہے ۔ حضرت امام حسین اور ان کے رفقاء رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جس شان کے ساتھ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ،تاریخ اسکی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔ان نفوس قدسیہ نے اپنا سب کچھ لٹا دیا لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا ۔ جان دینا گوارا فرمالیا، لیکن شوکت اسلام پر حرف نہ آنے دیا۔

گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جان عالم ہو فدا اے خاندان اہل بیت

ماہِ محرم الحرام جب بھی تشریف لاتا ہے کربلا والوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ شہدائے کربلابالخصوص نواسہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم،جگر گوشہ بتول،امام عالی مقام، امام عرش مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب پیش کیا جاتا ہے۔اس واقعہ سے متعلق محررین وعلمائے کرام نے متعدد کتابیں لکھیں،جن میں سے

بعض کتب نے بہت پذیرائی حاصل کی۔کتاب ''آئینہ قیامت '' کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب شہنشاہ سخن،استادزمن،برادر اعلی حضرت مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ المنان نے تحریر فرمائی۔اس کتاب کے بارے میں شہزادہ اعلی حضرت، تاجدار اہلسنت، امام الفقہاء حضور مفتی اعظم ہندابو البرکات محمد مصطفی رضا علیہ الرحمۃ ''الفتاوی المصطفویۃ'' میں لکھتے ہیں:
''آئینہ قیامت'' تصنیف حضرت عمی جناب استادزمن مولانا حسن رضا خاں صاحب حسنؔ رحمہ اللہ تعالیٰ ،یہ کتاب اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی دیکھی اور مجالس میں کتنی ہی بار سنی ہوئی ہے۔ (الفتاویٰ المصطفویۃ،ص۴۶۳،شبیر برادرز لاھور)

خود اعلیٰ حضرت،عظیم البرکت،عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت،عاشق ماہ نبوت مولانا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الحنان سے جب ذکرِ شہادت سے متعلق سوال کیا گیا توآپ نے جواباً ارشاد فرمایا:
''مولاناشاہ عبدالعزیز صاحب کی کتاب جو عربی میں ہے وہ یا حسن میاں مرحوم میرے بھائی کی کتاب '' آئینہ قیامت''میں صحیح روایات ہیں انہیں سننا چاہیے، باقی غلط روایات کے پڑھنے سے نہ پڑھنا اور نہ سننا بہت بہتر ہے۔''

(ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم،ص۲۵۱)

الحمد للہ عزوجل! حسب سابق ''مجلس المدینۃ العلمیۃ ''(دعوت اسلامی) نے اس کتاب کو بھی نئے انداز سے شائع کرنے کا ارادہ کیا اوراورطباعتِجدید ہ کے لئے ان امورکا اہتمام کیا؛
(۱)کتاب کی نئی کمپوزنگ(۲)مکرر پروف ریڈنگ
(۳)دیگر نسخوں سے مقابلہ(۴)حوالہ جات کی تخریج

(۵)عربی وفارسی عبارات کی درستگی(۶) پیرابندی
(۷)آیات کا ترجمہ کنزالایمان کے مطابق
اورآخر میں مآخذ و مراجع کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ آخری صفحات میں شیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنّت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تألیف فیضانِ سنت جلد اوّل سے فضائل ِ عاشورہ بھی شامل کئے گئے ہیں ۔
ان تمام امور کو ممکن بنانے کے لیے ''مجلس المدینۃ العلمیۃ'' کے مَدَنی علماء دامت فیوضھم نے بڑی محنت ولگن سے کام کیا اور حتی المقدور اس کتاب کو احسن انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ۔اللہ عزوجل ان کی یہ محنت اور سعی قبول فرمائے، انہیں جزائے جزیل عطا فرمائے اور اخلاص واستقامت کے ساتھ دین کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد والہ واصحابہ اجمعین

حبیب خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں فضل شہادت کی حاضری

ہمارے حضورپرنور سرورِعالَم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کواللہ تعالیٰ نے تمام کمالات وصفات کامجمعِ خلق فرمایا۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سے اوصافِ حمیدہ وخصائلِ پسندیدہ کسی مَلک ، کسی بشر،کسی رسول،کسی پیغمبرمیں ممکن نہیں۔ بنظرِظاہر،صرف فضلِ شہادت ،اس بارگاہِ عرش اشتباہ کی حاضری سے محروم رہا۔ اس کی نسبت علمائے کرام کا خیال ہے اور کتنانفیس خیال ہے کہ جنگِ اُحُدشریف میں اس روحِ مصور، جانِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کادندانِ مبارک شہید ہونا سب شہیدوں کی شہادت سے افضل ہے۔ اورجس وقت حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کاتعلقِ خاطرشہزادوں کے ساتھ خیال میں آتا ہے تو اس امر کے اظہارمیں کچھ بھی تامل نہیں رہتا کہ ان حضرات کی شہادت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمہ کی شہادت ہے اورانہوں نے نیابۃً اس شرف کوسرسبزی وسرخروئی عطا فرمائی۔

فضائل امام حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما

ایک بارحضرتِ امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرِخدمتِ اقدس ہوکر حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شانہہ مبارک پرسوارہوگئے،ایک صاحب نے عرض کیا :صاحبزاد ے آپ کی سواری کیسی اچھی ہے۔حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:''اور سوارکیسا اچھا

سوار ہے۔

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمدالحسن...الخ،الحدیث ۳۸۰۹، ج۵،ص۴۳۲)

حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سجدے میں تھے کہ امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پشت مبارک سے لپٹ گئے ،حضورعلیہ الصلوۃ و السلام نے سجدے کوطول دیاکہ سراٹھانے سے کہیں گرنہ جائیں ۔

(مسند ابی یعلی،مسند انس بن مالک،الحدیث۳۴۱۵،ج۳،ص۲۱)

امامِ حسن اورامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی نسبت ارشاد ہوتاہے: ''ہمارے یہ دونوں بیٹے جوانانِ جنت کے سردارہیں ۔''

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۳، ج۵،ص۴۲۶)

اورفرمایاجاتاہے ''ان کا دوست ہمارادوست ،ان کادشمن ہمارادشمن ہے ۔ ''

(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فضل الحسن والحسین،الحدیث۱۴۳، ج۱،ص۹۶)

اورفرماتے ہیں: صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ''یہ دونوں عرش کی تلواریں ہیں''۔اور فرماتے ہیں:صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہے اورمیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں ،اللہ عزوجل دوست رکھے اسے جوحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودوست رکھے، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبط ہے اسباط سے ۔''

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۸۰۰، ج۵،ص۴۲۹)

ایک روز حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہنے زانوپرامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اوربائیں پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صاحبزادے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے ،حضرت جبریل علیہ السلام نے حاضرہوکر عرض کی کہ''ان دونوں کوخدا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس نہ رکھے گاایک کواختیارفرمالیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی ،تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ۔اس واقعہ کے بعد جب حاضر ہوتے،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بوسے لیتے اورفرماتے: ''مرْحَبًا بِمَنْ فَدَیْتُہٗ بِاِبْنِیْ۔ ایسے کومرحباجس پر میں نے اپنا بیٹاقربان کیا۔ (تاریخ بغداد،ج۲،ص۲۰۰،بلفظ'' فدیت من '')

اورفرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ''یہ دونوں میرے بیٹے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں،الٰہی!عزوجل میں ان کو دوست رکھتا ہوں توبھی انہیں دوست رکھ اوراسے دوست رکھ جوانہیں دوست رکھے ۔ ''

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۴، ج۵،ص۴۲۷)

بتول زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتے'' میرے دونوں بیٹوں کولاؤپھردونوں کو سونگھتے اورسینہ انورسے لگالیتے ۔ ''

(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۷، ج۵،ص۴۲۸ )

محبوبانِ بارگاہِ الٰہی عزوجل اور قانونِ قدرت

جب حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یہ ارشاداورشہزادوں کی ایسی پاسداریاں، نازبرداریاں یادآتی ہیں اورواقعاتِ شہادت پرنظرجاتی ہے توحسرت کی آنکھوں سے

آنسو نہیں،لہو کی بوندیں ٹپکتی ہیں اورخداعزوجل کی بے نیازی کاعالم آنکھوں کے سامنے چھاجاتا ہے، یہ مقدس صورتیں خداعزوجل کی دوست ہیں اوراللہ جل جلالہ کی عادتِ کریمہ ہے کہ دنیاوی زندگی میں اپنے دوستوں کو بلاؤں میں گھرا رکھتا ہے ۔
ایک صاحب نے عرض کی کہ'' میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ فرمایا: ''فقرکے لئے مستعد ہوجا۔''عرض کی: ''اللہ تعالیٰ کودوست رکھتا ہوں ۔'' ارشادہوا: ''بلاکے لئے آمادہ ہو۔ ''

اورفرماتے ہیں :''سخت ترین بلا انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر ہے ،پھر جوبہتر ہیں پھر جو بہترہیں ۔ '' (المسند للامام أحمد،الحدیث:۲۷۱۴۷،ج۱۰،ص۳۰۶)

ع نزدیکاں رابیش بود حیرانی
(یعنی مقربین کو حیرانی زیادہ ہوتی ہیں۔)
ع جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اور خاندانِ سرکار کا فقرِ اختیاری

ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخداعزوجل نے اشرف تریں مخلوق بنایااور محبوبیتِ خاص کا خلعتِ فاخرہ عطا فرمایا ۔اسی وجہ سے دنیاکی جوبلائیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اٹھائیں اورجو مصیبتیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے برداشت کیں کسی سے ان کا تحمل ممکن نہیں ۔اللہ اللہ! محبوبیت کی تووہ ادائیں کہ فرمایاجاتاہے:

''لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا'' اے محبوب !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں اگرتم کونہ پیداکرتاتودنیاہی کونہ بناتا ۔

(فردوس الأخبار،الحدیث:۸۰۹۵،ج۲،ص۴۵۸''بلفظ ماخلقت'')

علوِمرتبت کی وہ کیفیتیں کہ اپنے خزانے کی کنجیاں دے کرمختارکل بنادیاکہ جو چاہو کرو،سیاہ و سپیدکاتمہیں اختیارہے۔
ایسے بادشاہ جن کے مقدس سرپردونوں عالم کی حکومت کا چمکتاتاج رکھا گیا، ایسے رفعت پناہ ،جن کے مبارک پاؤں کے نیچے تختِ الٰہی بچھایا گیا،شاہی لنگرکے فقیر،سلاطین ِعالم، سلطانی باڑے کے محتاج، شاہان معظم، دنیا کی نعمتیں بانٹنے والے، زمانے کی دولتیں دینے والے، بھکاریوں کی جھولیاں بھریں ،منہ مانگی مرادیں پوری کریں۔ اب کاشانہ اقدس اور دولت سرائے مقدس کی طرف نگاہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی شان نظرآتی ہے۔ایسے جلیل القدربادشاہ جن کی قاہرحکومت مشرق مغرب کوگھیرچکی اورجن کاڈنکا ہفت آسمان وتمام روئے زمین میں بج رہا ہے ،ان کے برگزیدہ گھر میں آسایش کی کوئی چیزنہیں ،آرام کے اسباب تودرکنار، خشک کھجوریں اورجَو کے بے چھنے آٹے کی روٹی بھی تمام عمرپیٹ بھرکرنہ کھائی ۔

کل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش)

شاہی لباس دیکھئے توسترہ سترہ پیوند لگے ہیں ،وہ بھی ایک کپڑے کے نہیں۔ دو دومہینے سلطانی باورچی خانے سے دھواں بلند نہیں ہوتا ۔دنیوی عیش وعشرت کی تویہ کیفیت ہے، دینی وجاہت دیکھئے تو اس تاجدارصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شوکت اوراس سادگی پسند کی وجاہت سے دونوں عالم گونج رہے ہیں ۔

مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

یہاں یہ امربھی بیان کردینے کے قابل ہے کہ یہ تکلیفیں ،یہ مصیبتیں محض اپنی خوشی سے اٹھائی گئیں ،اس میں مجبوری کوہر گز دخل نہ تھا ۔
ایک بارآپ کے بہی خواہ اوررضاجودوست جل جلالہ نے پیام بھیجا کہ ''تم کہوتومکہ کے دوپہاڑوں کوسونے کا بنا دوں کہ وہ تمہارے ساتھ رہیں، عرض کی: ''یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن دے کہ شکربجا لاؤں ،ایک دن بھوکا رکھ کہ صبرکروں ۔''

(سنن الترمذی،کتاب الزہد،باب ماجاء فی الکفاف...الخ،ج۴،ص۱۵۵،الحدیث: ۲۳۵۴)

مسلمانو!اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کونفسِ مطمئنہ عطافرمایا ہے ۔ اگرآپ عیش وعشرت میں بسرفرماتے اورآسایش وراحت محبوب رکھتے، توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پروردگارعزوجل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوشی پرخوش ہونے والا دنیامیں جنتوں کواتارکررکھ دیتا،اوریہ سامانِ عیش آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے برگزیدہ اورپاک نفس میں ہرگزتغیرپیدانہ کرسکتا،ایسی حالت میں یہ بلاپسندی اور مصیبت دوستی اسی بنیادپرہوسکتی ہے کہ آپ رحمۃللعالمین ٹھہرے، دنیا کی ہر چیزکے حق میں رحمت ہو کرآئے، اگرآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمعیش وعشرت میں مشغول رہتے تو''تکلیف ومصیبت''جن سے عاقبت میں حضورعلیہ الصلاۃوالسلام کے غلاموں کوبھی سروکار نہ ہوگا،برکات سے محروم رہ جاتیں۔
ایک بارحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مسلمانوں کوکنیزیں اورغلام تقسیم فرمارہے تھے، مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے حضرت بتول زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا:''جاؤ!تم بھی اپنے لئے کوئی کنیز لے آؤ۔ ''حاضرہوئیں اورہاتھ دکھا کرعرض کرنے لگیں کہ ''چکیاں پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں ایک کنیزمجھے بھی عنایت ہو۔'' ارشادہوا: ''اے

فاطمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں تجھے ایسی چیزبتاتاہوں جوکنیزوغلام سے زیادہ کام دے، تُو رات کو سوتے وقت سبحان اللہ ۳۳بار،الحمدللہ ۳۳بار،اللہ اکبر۳۴بارپڑھ کر سو رہاکر۔ ''

(سنن الترمذی،کتاب الدعوات،باب ما جاء فی التسبیح...الخ،الحدیث۳۴۱۹، ج۵،ص۲۶۰)

ایک بارحضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے کاشانہ میں تشریف لے گئے ،دروازہ تک رونق افروزہوئے تھے کہ حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاتھوں میں چاندی کی ایک چوڑی ملاحظہ فرمائی ،واپس تشریف لے آئے، حضرتِ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہانے وہ چوڑیاں حاضر کردیں کہ انہیں تصدق کر دیجئے، مساکین کو عطافرما دی گئیں اور دوچوڑیاں عاج کی مرحمت ہوئیں اور ارشاد ہوا: ''فاطمہ! دنیا، محمداور آلِ محمد کے لائق نہیں ''۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم
عمرِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرآئے ،دیکھا کہ کھجورکی چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں ،اوراس نازک جسم اورنازنین بدن پر بوریے کے نشان بن گئے ہیں ،یہ حالت دیکھ کربے اختیاررونے لگے اورعرض کی کہ''یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم، قیصروکسریٰ، خداکے دشمن،نازونعمت میں بسرکریں اورخداعزوجل کا محبوب تکلیف و مصیبت میں؟ '' ارشادہوا:''کیاتُواس امرپرراضی نہیں کہ انہیں دنیا کے عیش ملیں اورتُو عقبیٰ کی خوبیوں سے بہرہ ور ہو؟''

(صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب تبتغی مرضاۃ...الخ، الحدیث۴۹۱۳، ج۳،ص۳۶۰)

اللہ عزوجل کے حقیقی دوست

حضرتِ سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بذریعہ الہام فرمایا گیا ''اے سری! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے مخلوق پیدا فرماکراس سے پوچھا:''کیاتم مجھ کودوست رکھتے ہو؟'' سب نے بالاتفاق عرض کی کہ ''تیرے سوا اورکون ہے جسے ہم دوست رکھیں گے؟'' پھرمیں نے دنیا بنائی نوحصے اس کی طرف ہوگئے ،ایک حصہ نے کہا:''ہم اس کی خاطر تجھ سے جدائی نہ کریں گے۔''پھرآخرت خلق فرمائی ،اس ایک حصہ سے نوحصے اس کے خریدار ہوگئے،باقیوں نے عرض کی:'' ہم دنیا کے سائل نہ آخرت پرمائل،ہم تو تیرے چاہنے والے ہیں ۔''پھربلائیں پیش کیں ان میں سے بھی نوحصے گھبراکرپریشان ہوگئے، ایک حصہ نے عرض کی: ''تُوزمین اورآسمان کے چودہ طبق کوبلاکاایک طوق بناکر ہمارے گلے میں ڈال دے، مگرہم تیری طرف سے منہ پھیرنے والے نہیں۔'' ان کی نسبت ارشاد ہوا: ''اُولئِکَ اَوْلِیَائِی حَقًّا'' یہ میرے سچے دوست ہیں ۔
اب اہلِ بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بلاپسندی حیرت کی آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہے ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بلاونعمت کے بارے میں سُوال ہوا،فرمایا: ہمارے نزدیک دونوں برابر ہیں ۔

ع انچہ ازدوست می رسدنیکوست
(یعنی دوست سے جو کچھ پہنچے اچھا ہوتا ہے۔)

امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخبرہوئی ،ارشادہوا:''اللہ عزوجل ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رحم کرے مگرہم اہل بیت کے نزدیک بلا،نعمت سے افضل ہے کہ نعمت میں نفس کابھی

حظ ہے اوربلامحض رضائے دوست ہے ۔ ''

اللھم صل علی سیدنا ومولانامحمدوعلی الہ واصحابہ اجمعین

یزیدپلیدکی تخت نشینی اورقیامت کے سامان

ہجرت کاساٹھواں سال اوررجب کامہینہ کچھ ایسا دل دکھانے والاسامان اپنے ساتھ لایا،جس کانظارہ اسلامی دنیاکی آنکھوں کو ناچاراس طرف کھینچتا ہے،جہاں کلیجا نوچنے والی آفتوں ،بے چین کردینے والی تکلیفوں نے دینداردِلوں کے بے قرارکرنے اورخداپرست طبیعتوں کوبے تاب بنانے کے لئے حسرت وبے کسی کاسامان جمع کیا ہے۔ یزیدپلیدکاتختِ سلطنت کواپنے ناپاک قدم سے گندہ کرنا ان ناقابلِ برداشت مصیبتوں کی تمہیدہے جن کوبیان کرتے کلیجا منہ کوآتااوردل ایک غیرمعمولی بے قراری کے ساتھ پہلومیں پھڑک جاتاہے ۔اس مردودنے اپنی حکومت کی مضبوطی ، اپنی ذلیل عزت کی ترقی اس امرمیں منحصرسمجھی کہ اہلِ بیتِ کرام کے مقدس وبے گناہ خون سے اپنی ناپاک تلوار رنگے ۔اس جہنمی کی نیت بدلتے ہی زمانے کی ہوانے پلٹے کھائے اورزہریلے جھونکے آئے کہ جاوداں بہاروں کے پاک گریباں،بے خزاں پھولوں، نوشگفتہ گلوں کے غم میں چاک ہوئے، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہری بھری لہلہاتی پھلواڑی کے سہانے نازک پھول مرجھا مرجھا کرطرازِ دامنِ خاک ہوئے۔

امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور بھائی کو نصیحت

اس خبیث کاپہلا حملہ سیدنا امام حسن پر چلا۔ جعدہ زوجہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہکایا کہ اگر تو زہر دے کر امام کا کام تمام کر دے گی تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔

وہ شقیہ بادشاہ بیگم بننے کے لالچ میں شاہان جنت کا ساتھ چھوڑ کر ،سلطنت عقبیٰ سے منہ موڑ کرجہنم کی راہ پر ہولی۔ کئی بار زہر دیاکچھ اثر نہ ہوا،پھرتو جی کھول کر اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرے اور امام جنت مقام کو سخت تیز زہر دیا یہاں تک کہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جگرپارے کے اعضائے باطنی پارہ پارہ ہو کر نکلنے لگے۔
یہ بے چین کر نے والی خبر سن کرحضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے بھائی کے پاس حاضرہوئے ۔سرہانے بیٹھ کرگزارش کی: ''حضرت کوکس نے زہردیا؟ فرمایا ''اگر وہ ہے جومیرے خیال میں ہے تواللہ بڑابدلہ لینے والا ہے،اور اگرنہیں، تومیں بے گناہ سے عوض نہیں چاہتا۔''

(حلیۃ الاولیاء،الحسن بن علی،الحدیث۱۴۳۸،ج۲،ص۴۷ملخصاً)

ایک روایت میں ہے،فرمایا:''بھائی!لوگ ہم سے یہ امیدرکھتے ہیں کہ روز قیامت ہم ان کی شفاعت فرماکرکام آئیں نہ یہ کہ ان کے ساتھ غضب اورانتقام کوکام میں لائیں''۔

واہ رے حلم کہ اپنا تو جگر ٹکڑے ہو
پھر بھی ایذائے ستم گرکے روا دار نہیں

پھر جانے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویوں وصیت فرمائی:''حسین دیکھو سفیہانِ کوفہ سے ڈرتے رہنا ،مباداوہ تمہیں باتوں میں لے کربلائیں اوروقت پر چھوڑ دیں ،پھرپچھتاؤ گے اوربچاؤ کاوقت گزرجائے گا''۔
بے شک امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل اوردل پرلکھ لینے کے لائق تھی،مگراس ہونے والے واقعے کوکون روک سکتا؟ جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہورکررکھاتھا۔

امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر واقعہ کربلا سے پہلے ہی مشہور تھی

حضورسرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت شریفہ سے تین سوبرس پیش تریہ شعرایک پتھرپرلکھاملا:

اَ تَرْجُوْ اُمَّۃٌ قَتَلَتْ حُسَیْناً
شَفَاعَۃَ جَدِّہٖ یَوْمَ الْحِسَابِ

کیا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روزِقیامت ان کے نانا جان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت پائیں گے ؟
یہی شعر ارضِ روم کے ایک گرجا میں لکھاپایا گیا اور لکھنے والا معلوم نہ ہوا۔کئی حدیثوں میں ہے ،حضور سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ام المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکے کاشانہ میں تشریف فرماتھے ،ایک فرشتہ کہ پہلے کبھی حاضر نہ ہواتھا اللہ تبارک وتعالیٰ سے حاضری کی اجازت لے کر آستان بوس ہوا،حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ام المؤمنین سے ارشادفرمایا:دروازے کی نگہبانی رکھو،کوئی آنے نہ پائے ،اتنے میں سیدناامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ کھول کر حاضر ِخدمت ہوئے اور کُودکر حضور پرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گودمیں جابیٹھے ،حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پیار فرمانے لگے ،فرشتے نے عرض کی: ''حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں چاہتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں! عرض کی:'' وہ وقت قریب آتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت انہیں شہید کرے گی اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم چاہیں وہ زمین حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھا دوں جہاں یہ شہید کئے جائیں گے ۔ پھرسرخ مٹی اورایک روایت میں ہے ریت،

ایک میں ہے کنکریاں ،حاضرکیں ۔حضورعلیہ الصلاۃو السلام نے سونگھ کر فرمایا: ''رِیْحُ کَرْبٍ وَّبَلاَء''بے چینی اوربلا کی بُوآتی ہے ،پھرام المؤمنین کو وہ مٹی عطاہوئی اور ارشاد ہوا: ''جب یہ خون ہوجائے توجاننا کہ حسین شہیدہوا''انہوں نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ چھوڑی ۔ اُم المؤمنین فرماتی ہیں:'' میں کہا کرتی جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی کیسی سختی کادن ہوگا۔''

(المعجم الکبیر،الحدیث ۲۸۱۷،۲۸۱۸،۲۸۱۹،ج۳،ص۱۰۸)

امیر المؤمنین مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ صفین کو جاتے ہوئے زمینِ کربلا پر گزرے، نام پوچھا لوگوں نے کہا:''کربلا!''یہاں تک روئے کہ زمین آنسوؤں سے ترہوگئی پھرفرمایا:میں خدمتِ اقدس حضور سیدِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں حاضر ہوا، حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوروتا پایا،سبب پوچھا ،فرمایا:'' ابھی جبریل علیہ السلام کہہ گئے ہیں کہ میرا بیٹاحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرات کے کنارے کربلا میں قتل کیاجائے گا''پھرجبریل علیہ السلام نے وہاں کی مٹی مجھے سونگھائی مجھ سے ضبط نہ ہوسکااورآنکھیں بہہ نکلیں ۔
ایک روایت میں ہے ،مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مقام سے گزرے جہاں اب امامِ مظلوم کی قبرمبارک ہے ،فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بٹھائی جائیں گی، یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے ،اوریہاں ان کے خون گریں گے ۔آلِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کچھ نوجوان اس میدان میں قتل ہوں گے جن پر زمین وآسماں روئیں گے ۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی،ج۲،ص۱۴۷) اللھم صل علی سیدنا ومولانامحمدوعلی الہ واصحٰبہ اجمعین

یزید کا پیغامِ بیعت اور امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینے سے روانگی

امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کام تمام کرکے جب یزید پلید نے اپنے ناشاد دل کو خوش کرلیا ،اب اس شقی کو امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یادآئے ،مدینہ کے صوبہ دارولید کو خط لکھا کہ
حسین اور عبداللہ ا بن عمر اور عبد اللہ ا بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بیعت کے لئے کہے اور مہلت نہ دے۔ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسجد میں بیٹھنے والے آدمی ہیں اورابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک موقع نہ پائیں گے خاموش رہیں گے ،ہاں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت لینی سب سے زیادہ ضروری ہے کہ یہ شیر اور شیر کا بیٹا موقع کا انتظار نہ کریگا ۔
صوبہ دار نے خط پڑھ کر پیامی بھیجا،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''چلوآتے ہیں''۔ پھر عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:''دربار کا وقت نہیں، بے وقت بلانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سردار نے وفات پائی ،ہمیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ موت کی خبر مشہور ہونے سے پہلے یزید کی بیعت ہم سے لی جائے ''۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' میرابھی یہی خیال ہے ایسی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیا رائے ہے؟'' فرمایا: ''میں اپنے جوان جمع کر کے جاتا ہوں ،ساتھیوں کودروازے پر بٹھا کر اس کے پاس جاؤں گا ۔'' ابن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:''مجھے اس کی جانب سے اندیشہ ہے۔'' فرمایا:''وہ میرا کچھ نہیں کرسکتا۔ ''پھر اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے ،ہمراہیوں کو ہدایت کی: ''جب میں بلاؤں یا میری آوازبلند ہوتے سنو ،اندرچلے آنا اورجب

تک میں واپس نہ آؤں کہیں ہل کر نہ جانا۔''یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ،ولید کے پاس مروان کو بیٹھا پایا ،سلام علیک کر کے تشریف رکھی، ولید نے خط پڑھ کر سنایا وہی مضمون پایا جو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال شریف میں آیا تھا ۔ بیعت کا حال سن کر ارشاد ہوا:''مجھ جیسے چھپ کربیعت نہیں کرتے ،سب کو جمع کرو ، بیعت لو، پھر ہم سے کہو '' ولیدنے بنظرِعافیت پسندی عرض کی :''بہتر!تشریف لے جائیے۔'' مروان بولا: ''اگر اس وقت انہیں چھوڑدے گا اور بیعت نہ لے گا توجب تک بہت سی جانوں کا خون نہ ہو جائے، ایساوقت ہاتھ نہ آئے گا ،ابھی روک لے بیعت کر لیں تو خیر ورنہ گردن ماردے۔ ''یہ سن کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''ابن الزرقاء!تُو یا وہ ،کیا مجھے قتل کر سکتا ہے ؟خداکی قسم!تُونے جھوٹ کہا اورپاجی پن کی بات کی ۔'' یہ فرماکر واپس تشریف لائے۔
مروان نے ولیدسے کہا:''خداکی قسم! اب ایساموقع نہ ملے گا ۔'' ولیدبولا: ''مجھے پسند نہیں کہ بیعت نہ کرنے پرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کروں ،مجھے تمام جہاں کے ملک ومال کے بدلے میں بھی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قتل منظورنہیں ،میرے نزدیک حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا جس شخص سے مطالبہ ہو گا وہ قیامت کے دن خدائے قہار کے سامنے ہلکی تول والا ہے۔'' مروان نے منافقانہ طورپرکہہ دیا:'' تُونے ٹھیک کہا۔ ''

(الکامل فی التاریخ،ذکر بیعت یزید،ج۳،ص۳۷۷ملخصاً)

دوبارہ آدمی آیا ،فرمایا:'' صبح ہونے دو۔'' اور قصد فرمالیا کہ رات میں مکہ کے ارادے سے مع اہل وعیال سفرفرمایا جائے گا۔
یہ رات امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جدِکریم علیہ افضل الصلوۃوالتسلیم کے روضہ منورہ میں زاری کہ آخرتوفراق کی ٹھہرتی ہے ،چلتے وقت تو اپنے جدِکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم

کی مقدس گودسے لپٹ لیں پھرخداجانے زندگی میں ایساوقت ملے یا نہ ملے ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرام میں ھے کہ خواب دیکھا، حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے ہیں اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ و کلیجے سے لگا کرفرماتے ہیں:''حسین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ و وقت قریب آتاہے کہ تم پیاسے شہیدکئے جاؤ اور جنت میں شہیدوں کے بڑے درجے ہیں ۔''یہ دیکھ کرآنکھ کھل گئی ،اٹھے اور روضہ مقدس کے سامنے رخصت ہونے کو حاضر ہوئے۔

مسلمانو!حیاتِ دنیاوی میں امام کی یہ حاضری پچھلی حاضری ہے، صلوۃ وسلام عرض کرنے کے بعدسرجھکا کرکھڑے ہوگئے ہیں ،غمِ فراق کلیجے میں چٹکیاں لے رہا ہے ،آنکھوں سے لگاتارآنسوجاری ہیں ،رقت کے جوش نے جسمِ مبارک میں رعشہ پیداکردیاہے ،بے قراریوں نے محشربرپاکررکھا ہے ،دل کہتا ہے سرجائے ،مگریہاں سے قدم نہ اٹھائیے، صبح کے کھٹکے کاتقاضاہے جلدتشریف لے جائیے ،دو قدم جاتے ہیں اورپھر پلٹ آتے ہیں۔ حِب طن قدموں پر لوٹتی ہے کہ کہاں جاتے ہو؟غربت دامن کھینچتی ہے کیوں دیر لگاتے ہو ؟شوق کی تمنا ہے کہ عمربھرنہ جائیں، مجبوریوں کاتقاضا ہے دم بھرنہ ٹھہرنے پائیں ۔

شعبان کی چوتھی رات کے تین پہرگزرچکے ہیں اورپچھلے پہرکے نرم نرم جھونکے سونے والوں کو تھپک تھپک کر سلارہے ہیں ،ستاروں کے سنہرے رنگ میں کچھ کچھ سپیدی ظاہرہوچلی ہے ،اندھیری رات کی تاریکی اپنادامن سمیٹناچاہتی ہے تمام شہر میں سناٹاہے ،نہ کسی بولنے والے کی آوازکان تک پہنچتی ہے ،نہ کسی چلنے والے کی پہچل سنائی دیتی ہے ،شہربھرکے دروازے بند ہیں ،ہاں خاندانِ نبوت کے مکانوں میں اس وقت جاگ ہو رہی ہے اورسامانِ سفر درست کیا جارہا ہے ، ضرورت کی چیزیں باہرنکالی

گئی ہیں ،سواریاں دروازوں پرتیارکھڑی ہیں ،محمل کس گئے ہیں ،پردے کا انتظام ہوچکاہے،ادھرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے،بھائی،بھتیجے،گھروالے سوارہورہے ہیں ادھر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجدنبوی علی صاحبہ الصلاۃوالسلام سے باہرتشریف لائے ہیں، محرابوں نے سرجھکا کرتسلیم کی،میناروں نے کھڑے ہو کر تعظیم دی،قافلہ سالارکے تشریف لاتے ہی نبی زادوں کاقافلہ روانہ ہو گیاہے ۔

مدینہ میں اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے حضرت صغریٰ امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اور جناب محمد بن حنفیہ مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے باقی رہ گئے ۔

اللہ اکبر! ایک وہ دن تھاکہ حضورسرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کی ایذا دہی اورتکلیف رسانی کی وجہ سے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب یہ خبر سنی ،دلوں میں مسرت آمیزاُمنگوں نے جوش مارا اورآنکھوں میں شادی عید کا نقشہ کھنچ گیا ، آمدآمدکاانتظارلوگوں کوآبادی سے نکال کرپہاڑوں پرلے جاتا، منتظر آنکھیں مکہ کی راہ کو جہاں تک ان کی نظر پہنچتی ،ٹکٹکی باندھ کرتکتیں ،اورمشتاق دل ہرآنے والے کودورسے دیکھ کرچونک پڑتے ،جب آفتاب گرم ہوجاتا، گھروں پر واپس آتے ۔ اسی کیفیت میں کئی دن گزرگئے ،ایک دن اَورروز کی طرح وقت بے وقت ہو گیا تھا اورانتظارکرنے والے حسرتوں کو سمجھاتے ،تمناؤں کوتسکین دیتے پلٹ چکے تھے ،کہ ایک یہودی نے بلندی سے آوازدی''اے راہ دیکھنے والو!پلٹو!تمہارا مقصودبرآیا اورتمہارا مطلب پوراہوا۔''اس صداکے سنتے ہی وہ آنکھیں جن پرابھی حسرت آمیز حیرت چھاگئی تھی ،اشکِ شادی برسا چلیں ،وہ دل جو مایوسی سے مرجھا گئے تھے ،تازگی کے ساتھ جوش مارنے لگے ،بے قرارانہ پیشوائی کوبڑھے ،پروانہ

وارقربان ہوتے آبادی تک لائے ،اب کیا تھاخوشی کی گھڑی آئی ،منہ مانگی مرادپائی، گھرگھر سے نغماتِ شادی کی آوازیں بلند ہوئیں ،پردہ نشین لڑکیاں دف بجاتی، خوشی کے لہجوں میں مبارک بادکے گیت گاتی نکل آئیں :

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ

(یعنی وداع کے ٹیلوں سے ہم پر ایک چاند طلوع ہوا جب تک کوئی بلانے والا اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا رہے گا ہم پر اس (چاند)کاشکر واجب ہے۔)
بنی نجار کی لڑکیاں گلی کوچوں میں اس شعرسے اظہارِ مسرت کرتی ہوئی ظاہر ہوئیں :

نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَار

( یعنی ہم قبیلہ بنی نجار کی بچیاں ہیں حضرت سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیسے اچھے پڑوسی ہیں۔)
غرض مسرت کا جوش تھا، درودیوار سے خوشی ٹپکی پڑتی تھی ،ایک آج کا دن ہے کہ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدینہ چھوٹتا ہے،مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب راحتیں، تمام آسایشیں ،ایک ایک کر کے رخصت ہوتی اور خیرباد کہتی ہیں۔ یہ سب درکنار، ناز اٹھانے والی ماں کاپڑوس،ماں جائے بھائی کاہمسایہ اور سب سے بڑھ کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنا بیٹا قربان کردینے والے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کاقرب ،کیا یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی طرف سے آسانی کے ساتھ آنکھیں پھیر لی جائیں ؟آسانی سے

آنکھیں پھیرنی کیسی!اگرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومدینہ نہ چھوڑنے پرقتل کردیا جاتا توقتل ہونا منظورفرماتے اورمدینہ سے پاؤں باہر نہ نکالتے ،مگر اس مجبوری کا کیا علاج کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ناقہ کوقضا، مہارپکڑے اس میدان کی جانب لئے جاتی ہے، جہاں قسمت نے پردیسیوں کے قتل ہونے ،پیاسوں کے شہیدکئے جانے کا سامان جمع کیاہے۔مدینے کی زمین جس پرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھٹنوں چلے جس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بچپن کی بہاریں دیکھیں،جس پرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جوانی کی کرامتیں ظاہر ہوئیں، اپنے سرپر خاکِ حسرت ڈالتی اورپردیس جانے والے کے پیارے پیارے نازک پاؤں سے لپٹ لپٹ کر زبانِ حال سے عرض کر رہی ہے کہ'' اے فاطمہ رضی اللہ عنہاکی گودکے سنگھار!کلیجے کی ٹیک !زندگی کی بہار!کہاں کا ارادہ فرمادیا؟وہ کون سی سرزمین ہے جسے یہ عزت والے پاؤں جومیری آنکھوں کے تارے ہیں،شرف بخشنے کاقصد فرماتے ہیں ؟

اے تماشا گاہ عالم روئے تو
تو کجا بہر تماشا مے روی

(یعنی آپ نظارہ کے لئے کہاں جا رہے ہیں جبکہ دنیا کی نگاہیں آپ کے روئے انور پر مرتکز ہیں۔)
جس قدریہ برکت والاقافلہ نگاہ سے دورہوتاجاتاہے اسی قدرپیچھے رہ جانے والی پہاڑیاں اورمسجدِنبوی علی صاحبہ الصلاۃوالسلام کے منارے سر اٹھااٹھا کردیکھنے کی خواہش زیادہ ظاہر کرتے ہیں،یہاں تک کہ جانے والے نگاہوں سے غائب ہوگئے اورمدینہ کی آبادی پر حسرت بھرا سناٹا چھا گیا ۔

اللھم صل علی سیدنا ومولانامحمدوعلی الہ واصحٰبہ اجمعین

راستے میں عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے ،عرض کی:''کہاں کا قصد فرمالیا؟'' فرمایا: ''فی الحال مکہ کا ۔''عرض کی:''کوفے کاعزم نہ فرمایا جائے وہ بڑابے ڈھنگاشہر ہے ،وہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدِماجدرضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دغاکی گئی ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کے سوا کہیں کا ارادہ نہ فرمائیں ،اگرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہیدہوجائیں گے توخداکی قسم!ہماراٹھکانانہ لگارہے گا،ہم سب غلام بنا لئے جائیں گے۔'' بالآخرحضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ پہنچ کرساتویں ذی الحجہ تک امن وامان کے ساتھ قیام فرما رہے ۔

(الکامل فی التاریخ،ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین...الخ،ج۳،ص۳۸۱)


Previous Page

0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More