Ustad-e-Zaman >> Aina-e-Qayamat Blog P 2


کوفیوں کی طرف سے فریادوجھوٹے وعدے اور امامِ مسلم کی شہادت

    جب اہلِ کوفہ کویزیدخبیث کی تخت نشینی اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت طلب کئے جانے اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدینہ چھوڑ کرمکے تشریف لے آنے کی خبرپہنچی، فریب دہی وعیاری کی پرانی روش یاد آئی۔سلیمان بن صردخزاعی کے مکان پرجمع ہوئے، ہم مشورہ ہوکرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعرضی لکھی کہ تشریف لائیے اورہم کویزید کے ظلم سے بچائیے۔ ڈیڑھ سو عرضیاں جمع ہوجانے پرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا کہ ''اپنے معتمدچچازاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجتا ہوں ،اگریہ تمہارامعاملہ ٹھیک دیکھ کراطلاع دیں گے توہم جلدتشریف لائیں گے ۔ ''
    حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ پہنچے ،ادھرکوفیوں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومدد دینے کا وعدہ کیا ،بلکہ اٹھارہ ہزار داخلِ بیعت

بھی ہو گئے اورحضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہاں تک باتوں میں لے کر اطمینان دلایا کہ انہوں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوتشریف لانے کی نسبت لکھا ۔
    ادھریزید پلید کوکوفیوں نے خبر دی کہ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجا ہے ۔کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر ان کے ساتھ نرمی کابرتاؤ کرتے ہیں، کوفہ کابھلا منظور ہے تواپنی طرح کوئی زبردست ظالم بھیج ۔
    اس نے عبد اللہ ابن زیادکوحاکم بناکرروانہ کیا اورکہاکہ ''مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشہید کر ے یا کوفہ سے نکال دے ۔''جب یہ مردک کوفہ پہنچا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ اٹھارہ ہزارکی جماعت پائی ،امیروں کودھمکانے پرمقررکیا ،کسی کودھمکی دی، کسی کولالچ سے توڑا ۔یہاں تک کہ تھوڑی دیرمیں امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس صرف تیس آدمی رہ گئے ۔مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کرمسجدسے باہرنکلے کہ کہیں پناہ لیں۔ جب دروازہ سے باہرآئے ،ایک بھی ساتھ نہ تھا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔آخرایک گھر میں پناہ لی۔ ابن زیاد نے یہ خبر پاکرفوج بھیجی،جب امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آوازیں پہنچیں ،تلوارلے کراٹھے اوران روباہ منشوں کومکان سے باہرنکال دیا،کچھ دیربعدپھر جمع ہوکرآئے ،شیرِخدارضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھتیجا رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر تیغ بکف اٹھا اورآن کی آن میں ان شغالوں کو پریشان کردیا،کئی بار ایساہی ہوا جب ان نامردوں کااس اکیلے مردِ خدا پرکچھ بس نہ چلا،مجبورہوکرچھتوں پرچڑھ گئے پتھراور آگ کے لوکے پھینکنے شروع کئے۔ شیرِمظلوم کا تن ان ظالموں کے پتھروں سے خوناخون تھا،مگروہ تیغِ برکف و کف برلب حملہ فرماتاباہرنکلا،اورراہ میں جوگروہ کھڑے تھے ان پرعقاب ِعذاب کی طرح ٹوٹا۔جب یہ حالت دیکھی، ابن اشعث نے کہاکہ''آپ رضی

اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے امان ہے نہ آپ قتل کئے جائیں نہ کوئی گستاخی ہو ۔''مسلم مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھک کردیوارسے  پیٹھ لگاکربیٹھ گئے ، خچرسواری کے لئے حاضرہوا، اس پرسوار کئے گئے ،ایک نے تلوار حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے لے لی ،فرمایا:یہ پہلا مکر ہے۔ ابن اشعث نے کہا:''کچھ خوف نہ کیجئے ۔''فرمایا: ''وہ امان کدھر گئی ۔'' پھررونے لگے ۔ ایک شخص بولا: ''تم جیسا بہادراور روئے !۔ ''فرمایا:''اپنے لئے نہیں روتاہوں، رونا حسین اورآلِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ہے کہ وہ تمہارے اطمینان پرآتے ہوں گے اور انہیں اس مکرو بدعہدی کی خبر نہیں۔''پھر ابن اشعث سے فرمایا:''میں دیکھتا ہوں کہ تم مجھے پناہ دینے سے عاجز رہو گے اورتمہاری امان کام نہ دے گی ، اگرہوسکے تو اتنا کرو کہ اپنے پاس سے کوئی آدمی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کرمیرے حال کی اطلاع دے دو کہ وہ واپس جائیں اورکوفیوں کے فریب میں نہ آئیں ۔ ''

    جب مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن زیاد بدنہاد کے پاس لائے گئے ،ابن اشعث نے کہا: میں انہیں امان دے چکا ہوں ۔وہ خبیث بولا:''تجھے امان دینے سے کیا تعلق ؟ہم نے تجھے ان کے لانے کو بھیجا تھا نہ کہ امان دینے کو۔'' ابن اشعث چپ رہے ،مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شدتِ محنت اور زخموں کی کثرت میں پیاسے تھے ۔ٹھنڈے پانی کا ایک گھڑادیکھا، فرمایا:''مجھے اس میں سے پلا دو ۔'' ابن عمروباہلی بولا:''دیکھتے ہو کیسا ٹھنڈاہے ،تم اس میں سے ایک بوند نہ چکھنے پاؤ گے ،یہاں تک کہ( معاذاللہ )جہنم میں آب ِگرم پیو۔ ''
    امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اوسنگ دل! درشت خو!آب حمیم ونارِجحیم کاتو مستحق ہے۔ '' پھرعمارہ بن عقبہ کو ترس آیا ،ٹھنڈاپانی منگا کرپیش کیا، امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پینا چاہا ،پیالہ خون سے بھر گیا،تین بارایسا ہی ہوا،فرمایا: ''خداکوہی منظورنہیں ۔ ''

    جب ابن زیاد بدنہاد کے سامنے گئے،اسے سلام نہ کیا وہ بھڑکا اور کہا: تم ضرورقتل کئے جاؤ گے ۔ فرمایا:'' تو مجھے وصیت کر لینے دے۔'' اس نے اجازت دی ۔ مسلم مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمروبن سعدسے فرمایا:'' مجھ میں تجھ میں قرا بت ہے اور مجھے تجھ سے ایک پوشیدہ حاجت ہے۔اس سنگدل نے کہا میں سننا نہیں چاہتا۔ابن زیاد بولا '' سن لے کہ یہ تیرے چچا کی اولاد ہیں۔'' وہ الگ لے گیا،فرمایا: '' کوفہ میں،میں نے سات سودرہم قرض لئے ہیں وہ اداکردینا،اوربعدقتل میراجنازہ ابن زیاد سے لیکر دفن کرادینا اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی کوبھیج کرمنع کرابھیجنا ۔'' ابن سعد نے ابنِ زیاد سے یہ سب باتیں بیان کردیں ۔وہ بولا:''کبھی خیانت کرنے والے کو بھی امانت سپردکی جاتی ہے''یعنی انہوں نے پوشیدہ رکھنے کوفرمایا،تونے ظاہر کردیں، اپنے مال کاتجھے اختیار ہے جوچاہے کراور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرہماراقصد نہ کریں گے ،ہم ان کانہ کریں گے ،ورنہ ہم ان سے باز نہ رہیں گے ،رہامسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ ،اس میں ہم تیری سفارش سننے والے نہیں ،پھر حکم پاکرجلادظالم انہیں بالائے قصرلے گیا ،امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابرتسبیح واستغفارمیں مشغول تھے یہاں تک کہ شہید کئے گئے اوران کاسرمبارک یزیدکے پاس بھیجا گیا ۔ (الکامل فی التاریخ،دعوۃ اھل الکوفۃ...الخ،ج۳،ص۳۹۵۔۳۹۷)

امام الشہداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب کربلا روانگی

پائی نہ تیغِ عشق سے ہم نے کہیں پناہ
قرب ِحرم میں بھی تو ہیں قربانیوں میں ہم

    ۶۰ھ؁ کا پچھلا مہینہ ہے اورحج کازمانہ،دنیا کے دوردراز حصوں سے لاکھوں مسلمان

وطن چھوڑ کر عزیزوں سے منہ موڑ کر اپنے رب جل جلالہ کے مقدس اور برگزیدہ گھر کی زیارت سے مشرف ہونے حاضرآئے ہیں ،دلوں میں فرحت نے ایک جوش پیدا کردیا ہے ،اور سینوں میں سرور لہریں لے رہا ہے کہ یہی ایک رات بیچ میں ہے صبح نویں تاریخ ہے اور مہینوں کی محنت وصول ہونے ،مدتوں کے ارمان نکلنے کا مبارک دن ہے۔مسلمان خانہ کعبہ کے گرد پھرپھر کر نثار ہورہے ہیں ،مکہ معظمہ میں ہر وقت کی چہل پہل نے دن کوروزِ عید اوررات کو شبِ براء ت کا آئینہ بنا دیا ہے۔کعبہ کا دلکش بناؤ، کچھ ایسی دل آویز اداؤں کا سامان اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے کہ لاکھوں کے جمگھٹ میں جسے دیکھئے شوق بھری نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ پردے کی چِلمن سے کسی محبوب دلنواز کی پیاری پیاری تجلیاں چھن چھن کر نکل رہی ہیں،جن کی ہوش ربا تاثیروں ،دلکش کیفیتوں نے یہ مجلس آرائیاں کی ہیں ۔عاشقانِ دِلدادہ فرقت کی مصیبتیں ،جدائی کی تکلیفیں جھیل کرجب خوش قسمتی سے اپنے پیارے محبوب کے آستانہ پر حاضری کاموقعہ پاتے ہیں ،ادب وشوق کی الجھن ،مسرت آمیز بے قراری کی خوش آئند تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے اور وہ اپنی چمکتی ہوئی تقدیرپر طرح طرح سے نازکرتے اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں:

مقامِ وجد ہے اے دل کہ کوئے یارمیں آئے
بڑے دربار میں پہنچے بڑی سرکارمیں آئے

    غرض آج کا یہ دھوم دھامی جلسہ جو ایک غرض مشترک کے ساتھ اپنے محبوب کے درِدولت پرحاضر ہے ،اپنی بھرپور کامیابی پرانتہا سے زیادہ مسرت ظاہر کر رہاہے۔مگر امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص وجہ سے

اس مجمع میں شریک نہیں رہ سکتے یاان کے سامنے سے کسی نے پردہ اٹھا کر کچھ ایسا عالم دکھادیا ہے کہ ان کی مقدس نگاہ کواس مبارک منظرکی طرف دیکھنے اورادھر متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہیں۔ اوراگر کسی وقت حاجیوں کے جماؤکی طرف حسرت سے دیکھتے اورحجِ نفل کے فوت ہونے پراظہارافسوس بھی کرتے ہیں، توتقدیر،زبانِ حال سے کہہ اٹھتی ہے کہ ''حسین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم غمگین نہ ہواگر اس سال حج نہ کرنے کاافسوس ہے تو میں نے تمہارے لئے حجِ اکبرکاسامان مہیاکیا ہے اورکمر شوق پردامنِ ہمت کا مبارک احرام چست باندھو، اگر حاجیوں کی سعی کے لئے مکہ کاایک نالہ مقرر کیا گیا ہے توتمہارے لئے مکے سے کربلا تک وسیع میدان موجود ہے ۔حاجی اگر زمزم کاپانی پئیں توتمہیں تین دن پیاسارکھ کر شربتِ دیدار پلایا جائے گا کہ پیو تو خوب سیراب ہو کر پیو،حاجی بقرہ عید کی دسویں کو مکہ میں جانوروں کی قربانیاں کریں گے، تو تم محرم کی دسویں کوکربلا کے میدان میں اپنی گودکے پالوں کو خاک وخون میں تڑپتادیکھو گے ، حاجیوں نے مکہ کی راہ میں مال صرف کیا ہے ،تم کربلا کے میدان میں اپنی جان اورعمر بھر کی کمائی لُٹادوگے ،حاجیوں کے لئے مکہ میں تاجروں نے بازارکھولا ہے ،تم فرات کے کنارے دوست کی خاطراپنی دکانیں کھولو گے ۔یہاں تاجرمال فروخت کرتے ہیں، وہاں تم جانیں بیچوگے ،یہاں حاجی خرید وفروخت کوآتے ہیں ،تمہاری دکانوں پرتمہارا دوست جلوہ فرمائے گا،جوپہلے ہی ارشاد کرچکا ہے:

اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ

ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے(پ11،التوبۃ:111)

    غرض ان کیفیتوں نے کچھ ایسا ازخودرفتہ بنا دیا ہے کہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقرہ عید کی آٹھویں تاریخ کوفے کاقصد فرما لیا،جب یہ خبر مشہور ہوئی تو عمر بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ارادے کا خلاف کیا اور جانے سے مانع آئے، فرمایا: ''جوہونی ہے، ہوکررہے گی۔'' عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نہایت عاجزی سے روکنا چاہا ،اور عرض کی:''کچھ دنوں تأمل فرمائیے اورانتظارکیجئے ،اگرکوفی ابنِ زیاد کو قتل کردیں اوردشمنوں کونکال باہر کر یں توجانئے کہ نیک نیتی سے بلاتے ہیں اوراگروہ ان پرقابض اوردشمن موجود ہیں ہرگزوہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہکوبھلائی کی طرف نہیں بلاتے ،میں اندیشہ کرتاہوں کہ یہ بلانے والے ہی مقابل آئیں گے۔'' فرمایا: ''میں استخارہ کروں گا۔''عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پھر آئے اورکہا: ''بھائی صبرکرناچاہتا ہوں مگرصبرنہیں آتا،مجھے اس روانگی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہید ہونے کا اندیشہ ہے ،عراقی بدعہد ہیں ،انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا  ساتھ نہ دیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہلِ عرب کے سردار ہیں ،عرب ہی میں قیام رکھئے یاعراقیوں کو لکھئے کہ وہ ابنِ زیاد کو نکال دیں ،اگرایسا ہوجائے تشریف لے جائیے اوراگر تشریف ہی لے جانا ہے تو یمن کاقصدفرمائیے کہ وہاں قلعے ہیں ،گھاٹیاں ہیں اوروہ ملک وسیع زمین رکھتاہے۔'' فرمایا:''بھائی خداکی قسم!میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکوناصح مشفق جانتاہوں،مگرمیں تو ارادۂ مصمم کرچکا۔'' عرض کی:'' توبیبیوں اور بچوں کوتوساتھ نہ لے جائیے ۔'' یہ بھی منظور نہ ہوا۔
    عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماہائے پیارے!ہائے پیارے!کہہ کررونے لگے۔

اسی طرح عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہمانے منع کیا،نہ مانا،انہوں نے پیشانی مبارک پر بوسہ دے کرکہا:''اے شہیدہونے والے!میں تمہیں خداعزوجل کوسونپتاہوں ۔ ''
    یوہیں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روکا ،فرمایا:''میں نے اپنے والد ماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے کہ ایک مینڈھے کے سبب سے مکے کی بے حرمتی کی جائے گی، میں پسند نہیں کرتاکہ وہ مینڈھا میں بنوں ۔''جب روانہ ہولئے ،راہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچازادبھائی حضرت عبداللہ ابن جعفرطیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا، لکھا تھا،''ذرا ٹھہرئیے میں بھی آتاہوں۔ ''
    حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمروبن سعید حاکم مکہ سے امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ایک خط ''امان اور واپس بلانے کا'' مانگا ،انہوں نے لکھ دیا اور اپنے بھائی یحیي بن سعید کوواپس لانے کے لئے ساتھ کر دیا ۔دونوں حاضر آئے اور سرسے پاؤں تک گئے کہ واپس تشریف لے چلیں ،مقبول نہ ہوا۔فرمایا:'' میں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ہے اورمجھے ایک حکم دیا گیا ہے ،اس کی تعمیل کروں گا ،سرجائے خواہ رہے۔''پوچھا:''وہ خواب کیا ہے ؟'' فرمایا:''جب تک زندہ ہوں کسی سے نہ کہوں گا ۔'' یہ فرما کر روانہ ہوگئے ۔

 (الکامل فی التاریخ،ذکرمسیرالحسین الی الکوفۃ...الخ،ج۳،ص۳۹۹ ملخصا)

نظم

سب نے عرض کی کہ شہزادۂ حیدر مت جا
اے حسین ،ابن علی، سبط پیمبر مت جا
صدمے واں پہنچے علی اورحسن کو کیاکیا
جانا کوفہ کا تو ہرگز نہیں بہتر مت جا
حق نما آئینہ ہے رخ ترا اندھے ہیں وہی
لے کے اندھوں میں یہ آئینہ سکندر مت جا

سنگِ باراں سے بچا جامِ بلوریں اپنا
ایسے لوگوں میں جوپتھر سے ہیں بدترمت جا
گلِ شادابِ نبی اپنے چمن سے نہ نکل
نازنیں پھول ہے تُوکانٹوں کے اندرمت جا
چلتے ہیں صرصرِآفات کے مُظْلِم جھونکے
شمع رُو قلعۂ فانوس سے باہر مت جا
بُوسعید، ابنِ عمر، جابر، و ابنِ عباس
تھایہی کلمہ سب اصحاب کے لب پر مت جا
بیدل ؔاس شاہ کومقتل میں قضا لے ہی گئی
کہتے سب رہ گئے اے دین کے سرورمت جا

    جب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی امام محمدبن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوروانگیٔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خبر پہنچی ،طشت میں وضو فرما رہے تھے ،اس قدرروئے کہ طشت آنسوؤں سے بھردیا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہتھوڑی دور پہنچے ہیں کہ فَرَزْدَقْ شاعرکوفے سے آتے ملے ، کوفیوں کاحال پوچھا،عرض کیا: ''اے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے !ان کے دل حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہیں اوران کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ،قضاآسمان سے اترتی ہے اورخداجوچاہتاہے کرتا ہے۔ ''

ابن زیاد کی جانب سے ناکہ بندی

    غرض ادھر توامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے ،ادھر ابن زیاد بدنہاد بانی فسادکو جب یہ خبر پہنچی،قادسیہ سے خفان وکوہ لعلع اورقطقطانہ تک فوج سے ناکہ بندیاں کرادیں اور قیامت تک مسلمانوں کے دلوں کوگھائل کرنے اورکلیجوں میں گھاؤڈالنے کی بنیاد ڈال دی۔ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیس بن مسہرکواپنی تشریف آوری کی اطلاع دینے کوفے بھیجا،جب یہ مرحوم قادسیہ پہنچے ،ابن زیاد کے سپاہی گرفتارکرکے اس خبیث کے پاس لے گئے ۔اس مردود نے کہا:''اگرجان کی خیرچاہتے ہو تو اس چھت پرچڑھ کرحسین کوگالیاں دو۔''یہ سن کروہ خاندانِ نبوت کافدائی اہلِ بیتِ رسالت کا شیدائی چھت

پر گیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثناکے بعد بلند آواز سے کہنے لگا: ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج تمام جہان سے افضل ہیں ،رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کلیجے کے ٹکڑے ہیں،مولیٰ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں کے نور،دل کے سُرُورہیں ،میں ان کاقاصد ہوں ،ان کا حکم مانو اور ان کی اطاعت کرو''پھر کہا: ابنِ زیاد اور اس کے باپ پرلعنت۔ آخرِ کار اس مردک نے جل کرحکم دیا کہ چھت سے گرا کرشہید کئے جائيں ۔

        (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۲)

    اس وقت اس بادۂ الفت کے متوالے کابے قراردل ،امامِ عرش مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منہ کئے التجا کے لہجے میں عرض کر رہا ہے :

بجرم عشق توام مے کشندغوغائیست
تونیزبرسربام آکہ خوش تماشائیست

    (یعنی تیرے عشق کے جرم میں مجھے قتل کررہے ہیں اس لیے شوروغوغا ہے تو بھی چھت پر آکے دیکھ بہت خوبصورت نظارہ ہے)

زہیر بن قین بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت

    امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے توراہ میں زہیر بن قین بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے،وہ حج سے واپس آتے تھے اورمولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ کدورت رکھتے تھے ۔ دن بھر امام کے ساتھ رہتے ،رات کو علیحدہ ٹھہرتے ۔ایک روز امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا، بکراہت آئے ،خداعزوجل جانے کیا فرمادیااورکس اداسے دل چھین لیا کہ اب جو

واپس آئے تواپنااسباب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسباب میں رکھ دیا اورساتھیوں سے کہا: جومیرے ساتھ رہنا چاہے رہے ورنہ یہ ملاقات پچھلی ملاقات ہے ،پھر اپنا سامان لے آنے اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوجانے کا سبب بیان کیا کہ شہربلنجر پرہم نے جہاد کیا ،وہ فتح ہوا،کثیر غنیمتوں کے ملنے پر ہم بہت خوش ہوئے ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''جب تم جوانانِ آلِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہمکے سردار کوپاؤ توان کے ساتھ دشمن سے لڑنے پراس سے زیادہ خوش ہونا۔''اب وہ وقت آگیا،میں تم سب کوسپردبخداکرتاہوں،پھر اپنی بی بی کو طلاق دے کرکہا: ''گھر جاؤ، میں نہیں چاہتاکہ میرے سبب سے تم کوکوئی نقصان پہنچے ۔ ''

     (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۳)

   خداعزوجل جانے ان اچھی صورت والوں کی اداؤں میں کس قیامت کی کشش رکھی گئی ہے ،یہ جسے ایک نظردیکھ لیتے ہیں، وہ ہر طرف سے ٹوٹ کرانہیں کا ہو رہتا ہے۔ پھر یاروں سے یاری رہتی ہے نہ زن وفرزندکی پاسداری ۔آخریہ وہی زہیرتوہیں جو مولیٰ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کدورت رکھتے اوررات کو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہسے علیحدہ ٹھہرتے تھے، یہ انہیں کیا ہوگیا ؟اورکس کی ادانے بازرکھاجوعزیزوں کاساتھ چھوڑ ،عورت کو طلاق دینے پر مجبورہوکر بے کسی سے جان دینے اور مصیبتیں جھیل کر شہید ہونے کو آمادہ ہو گئے۔

امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر

    اب یہ قافلہ اوربڑھا توابن اشعث کا بھیجا ہواآدمی ملا ،جوحضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیاتھا ،اس سے حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ

عنہ کی شہادت کی خبر معلوم ہونے پر بعض ساتھیوں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکوقسم دی کہ یہیں سے پلٹ چلئے ۔ مسلم شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیزوں نے کہا :''ہم کسی طرح نہیں پلٹ سکتے ،یاخونِ نا حق کابدلہ لیں گے یامسلم مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملیں گے ۔'' امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''تمہارے بعدزندگی بے کارہے ۔''پھرجولوگ راہ میں ساتھ ہولئے تھے ان سے ارشادکیا :''کوفیوں نے ہمیں چھوڑدیا، اب جس کے جی میں آئے پلٹ جائے ،ہمیں کچھ ناگوارنہ ہوگا۔'' یہ اس غرض سے فرمادیا کہ لوگ یہ سمجھ کر ہمراہ ہوئے تھے کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی جگہ تشریف لیے جاتے ہیں جہاں کے لوگ داخلِ بیعت ہو چکے ہیں ،یہ سن کر سواان چند بندگانِ خداکے جومکہ معظمہ سے ہم رکاب سعادت مآب تھے ،سب اپنی اپنی راہ گئے ۔
    پھر ایک عربی ملے،عرض کی کہ'' اب تیغ وسناں پرجاناہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکو قسم ہے واپس جائیے ۔'' فرمایا:''جوخداچاہتاہے ہوکررہتاہے ۔''

 (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،ج۳،ص۴۰۳ملخصاً )

حضرت حر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد

    اب امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ موضع شراف سے آگے بڑھے ہیں ۔یہ دوپہرکا وقت ہے،یکایک ایک صاحب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا ،فرمایا:''کیاہے؟'' کہا:''کھجورکے درخت نظر آتے ہیں۔'' قبیلہ بنی اسد کے دوشخصوں نے کہا: ''اس زمین میں کھجورکبھی نہ تھے۔'' فرمایا:''پھر کیا ہے ؟'' عرض کی:'' سوارمعلوم ہوتے ہیں ۔'' فرمایا: ''میرا بھی یہی خیا ل ہے، اچھا تویہاں کوئی پناہ کی جگہ ہے کہ اسے ہم اپنی پشت پر لے کر

اطمینان کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرسکیں۔'' کہا:''ہاں! کوہ ذوحسم ،اگرحضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے پہلے اس تک پہنچ گئے۔''
    یہ باتیں ہورہی تھیں کہ سوار نظرآئے اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبقت فرما کرپہاڑ کے پاس ہو لئے ،جب وہ اورقریب آئے تومعلوم ہواکہ حُرہیں جوایک ہزارسواروں پر افسر بناکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوابن زیادبدنہادکے پاس لے جانے کے لئے بھیجے گئے ہیں ،اس ٹھیک دوپہرمیں اصحابِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہمکے سامنے اترے۔ مالکِ کوثر کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ'' انہیں اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلاؤ۔'' ہمراہیانِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہمنے پانی پلایا۔
    جب ظہرکاوقت ہوا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مؤذن کواذان کا حکم دیا،پھران لوگوں سے فرمایا: ''تمہاری طرف میراآنااپنی مرضی سے نہ ہوا،تم نے خط اور قاصدبھیج بھیج کربلایا، اب اگر اطمینان کا اقرار کرو،تومیں تمہارے شہرکوچلوں ورنہ واپس جاؤں ۔'' کسی نے جواب نہ دیا اورمؤذن سے کہا :تکبیر کہو ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حرسے فرمایا:''اپنے ساتھیوں کو تم نمازپڑھاؤگے؟''کہا:''نہیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھائیں اورہم سب مقتدی ہوں گے۔ بعدِنماز حر،اپنے مقام پر گئے۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد ان لوگوں سے ارشاد کیا:''اگرتم اللہ عزوجل سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کے لئے پہچانو تو خداتعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے کہ ہم اہلِ بیت ان ظالموں کے مقابلہ میں ا ولی الامر ہونے کے مستحق ہیں ، بایں ہمہ اگرتم ہمیں ناپسند کرواورہمارا حق نہ پہچانو اوراپنے خطوں اور قاصدوں کے خلاف ہمارے بارے میں رائے رکھنا چاہو تومیں واپس جاؤں۔ ''

     حرنے عرض کی:'' واللہ! ہم نہیں جانتے کیسے خط اورکیسے قاصد؟ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو خرجیاں بھرے ہوئے خط نکال کرسامنے ڈال دئیے۔حرنے کہا:''میں خط بھیجنے والوں میں نہیں ، مجھے تویہ حکم دیا گیا ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پاؤں توکوفہ ،ابن زیاد کے پاس پہنچاؤں۔'' فرمایا: ''تیری موت نزدیک ہے اور یہ ارادہ دور۔'' پھر ہمراہیوں کوحکم دیاکہ''واپس چلیں۔''حرنے روکا۔فرمایا:''تیری ماں تجھے روئے کیا چاہتا ہے؟ '' کہا: ''سنئے !خداکی قسم! آپ کے سواتمام عرب میں کوئی اور یہ بات کہتا تومیں اس کی ماں کو برابرسے کہتا۔کسے باشد،مگرواللہ!آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں رضی اللہ تعالیٰ عنہاکانامِ پاک تو میں ایسے موقع پرلے ہی نہیں سکتا۔''فرمایا:''آخرمطلب کیاہے؟ '' عرض کی: ''ابن زیادکے پاس حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لے چلنا۔''فرمایا: ''توخداکی قسم!میں تیرے ساتھ نہ چلوں گا ۔'' کہا :''توخداکی قسم !آپ کو نہ چھوڑوں گا ۔''
    جب بات بڑھی اورحُرنے دیکھا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں راضی نہ ہوں گے اور کسی گستاخی کی نسبت ان کے ایمان نے اجازت نہ دی تویہ عرض کی کہ ''میں دن بھر تو حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علیحدہ ہونہیں سکتا ،ہاں جب شام ہوتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے عورتوں کی ہمراہی کا عذرفرما کرعلیحدہ ٹھہرئیے اوررات میں کسی وقت موقع پا کر تشریف لے جائیے ،میں ابن زیاد کوکچھ لکھ بھیجوں گا ۔شاید اللہ تعالیٰ کوئی وہ صورت کرے کہ میں کسی معاملہ میں مبتلا ہونے کی جرأت نہ کرسکوں۔''

(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...الخ،ج۳،ص۴۰۷ملخصاً)

کوفیوں کی بے وفائی اور قیس بن مسہر کی شہادت کی خبر

    جب عذیب الہجانات پہنچے ،کوفے سے چارشخص آتے ملے ،حال پوچھا ،مجمع بن

عبید اللہ عامری نے عرض کی:'' شہرکے رئیسوں کو بھاری رشوتوں سے توڑ لیا گیا اوران کی تھیلیوں کوروپوں اشرفیوں سے بھر دیا گیا ہے وہ توایک زبان حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مخالف ہو گئے ۔رہے عوام ان کے دل حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب جھکتے ہیں اورکل انہیں کی تلواریں حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہپرکھنچیں گی۔ ''فرمایا:''میرے قاصد قیس کاکیاحال ہے؟'' کہا: ''قتل کئے گئے۔''امام رضی اللہ تعالیٰ عنہبے اختیارروپڑے اور فرمایا: ''کوئی اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی انتظار میں ہے،الٰہی!عزوجل ہمیں اور انہیں جنت میں جمع فرما۔ ''
    طرماح بن عدی نے عرض کی:''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ گنتی کے آدمی ہیں اگرحرکی جماعت ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے لڑے توکفایت کر سکتی ہے ،نہ کہ وہ جماعت جو چلنے سے ایک دن پہلے میں نے کوفہ میں دیکھی تھی ،جوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف روانگی کے لئے تیارہے ۔میں نے اپنی تمام عمرمیں اتنی بڑی فوج کبھی نہ دیکھی ،میں حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہکو قسم دیتا ہوں کہ اگران سے ایک بالشت بھر جدائی کی قدرت ہو تو اسی قدرکیجئے اوراگروہ جگہ منظورہو جہاں باذن اللہ تعالیٰ آرام واطمینان سے قیام فرما کر تدبیر فرمائیے تومیرے ساتھ کوہ اجأکی طرف چليے، واللہ!اس پہاڑکے سبب سے ہم بادشاہان غسان وحمیر اورنعمان بن المنذر بلکہ عرب وعجم کے سب حملوں سے محفوظ رہے ۔''حضور!رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں ٹھہر کراجأاورسلمی کے رہنے والوں کو فرمان تحریر فرمائيے ،خداکی قسم! دس دن نہ گزریں گے کہ قومِ طیئ کے سوارو پیادے حاضرخدمت ہوں گے ،پھر جب تک مرضی مبارک ہو ہم میں ٹھہرئيے اور اگر پیش قدمی کاقصد ہو تو بنی طیئ سے بیس ہزارجوان حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ کردینے کامیراذمہ ہے ، جوحضورکے سامنے تلوار چلائیں گے اورجب تک ان میں کوئی آنکھ پلک مارتی باقی

رہے گی حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ تک دشمن نہ پہنچ سکیں گے ۔ارشادہوا:''اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے ،ہمارااور کوفیوں کا کچھ قول ہوگیا ہے جس سے ہم پھرنہیں سکتے۔''یہ فرماکر انہیں رخصت کیا ۔ (المرجع السابق،ص۴۰۹)

امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خواب دیکھنا

    امام رضی اللہ تعالیٰ عنہنے راہ میں ایک خواب دیکھا ،جاگے تو ''انا للہ وانا الیہ راجعون والحمد للہ رب العالمین''کہتے ہوئے اٹھے ۔امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کی:'' اے میرے والد! میں آپ پرقربان ،کیا بات ملاحظہ فرمائی ؟'' فرمایا: ''خواب میں ایک سوار دیکھا،کہہ رہا ہے، لوگ چلتے ہیں اور ان کی قضائیں ان کی طرف چل رہی ہیں میں سمجھاکہ ہمیں ہمارے قتل کی خبردی جاتی ہے۔''حضرتِ عابد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ''اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکوئی برائی نہ دکھائے کیا ہم حق پر نہیں۔ '' فرمایا: ''ضرورہیں۔'' عرض کی: ''جب ہم حق پر جان دیتے اور قربا ن ہوتے ہیں،توکیا پرواہ ہے۔''فرمایا: ''اللہ تعالیٰ تم کو ان سب جزاؤں سے بہتر جزادے جو کسی بیٹے کوکسی باپ کی طرف سے ملے۔'' (المرجع السابق،ص۴۱۱)

ابن زیاد کی طرف سے امامِ عرش مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سختی کا حکم

    جب نینویٰ پہنچے توایک سوارکوفے سے آتا ملا ،اس نے حُرکو ابن زیاد کا خط دیا، لکھاتھا: ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہپرسختی کر ،جہاں اتریں میدان میں اتریں ،پانی سے دور ٹھہریں ،یہ قاصد برابرتیرے ساتھ رہے گا یہاں تک کہ مجھے خبردے کہ تونے میرے حکم کی کیا تعمیل کی ۔'' حر نے خط پڑھ کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گزارش کی کہ ''مجھے یہ حکم

آیا ہے میں اس کاخلاف نہیں کرسکتا کہ یہ قاصد مجھ پر جاسوس بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ ''
    زہیر بن قین نے عرض کی:''خداکی قسم! اس کے بعد جو کچھ آئے گا وہ اس سے سخت تر ہوگا اس گروہ کا قتال ہمیں آئندہ آنے والوں کے قتال سے آسان ہے ۔'' ارشاد ہوا: ''ہم ابتدا نہ کریں گے ۔''یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ آفتاب غروب ہو گیا اورمحرم کی دوسری رات کا چانداپنی ہلکی ہلکی روشنی دکھانے لگا،دونوں لشکر علیحدہ علیحدہ ٹھہرے۔

                                        (المرجع السابق)

نواسۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شب میں روانگی

    اب مشرقی کنا روں سے اندھیرا بڑھتا آتا ہے اور بزمِ فلک کی شمعیں روشن ہوتی جاتی ہیں، فضائے عالم کے سیاح اور خداعزوجل کی آزاد مخلوق پرند چہچہا چہچہا کر خاموش ہوگئے ہیں ،زمانے کی رفتار بتانے والی گھڑی اور عمروں کا حسا ب سمجھانے والی جنتری اسلامی سن کی تقویم جسے قدرت کے زبردست ہاتھ نے عرجون قدیم کی حد تک پہنچادیا ہے ،کچھ اپنی دلکش ادائیں دکھا کرروپوش ہو گئی ،تاریکیوں کا رنگ اب اور بھی گہرا ہو گیا ہے ۔نگاہیں جو تقریباً دو گھنٹے پہلے دنیا کی وسیع آبادی میں دُور کی چیزوں کوبہ اطمینان تمام دیکھتی اورپرکھ سکتی تھیں،اب یہ تھوڑے فاصلہ پربھی کام دینے میں الجھتی بلکہ ناکام رہ جاتی ہیں اوراگرکچھ نظر بھی آجاتا ہے تو رات کی سیاہ چلمن اسے صاف معلوم ہونے سے روکتی ہے۔ وقت کے زیادہ گزرنے اور بول چال کے موقوف ہوجانے نے سناٹا پیداکر دیا ہے رات اور بھی بھیانک ہو گئی ہے ۔شب بیدارستاروں کی آنکھیں جھکی پڑی ہیں ، سونے والے لمبیاں تانے سورہے ہیں ،نیند کا جادوزمانے پرچل گیا ہے،حرکے

لشکر سے نفیرِ خواب بلند ہوئی ہے ،امام جنت مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اتنی رات اسی موقع کے انتظار میں جاگ جاگ کر گزاری ہے ،کوچ کی تیاریاں فرما رہے ہیں اسباب جو شام سے بندھا رکھا تھا بار کیا گیا اور عورتوں بچوں کو سوار کرا یاگیاہے۔اب یہ مقدس قافلہ اندھیری رات میں فقط اس آسرے پر روانہ ہو گیا ہے کہ رات زیادہ ہے دشمن سوتے رہیں گے اورہم ان سے صبح ہونے تک بہت دور نکل جائیں گے ،باقی رات چلتے اور سواریوں کو تیز چلاتے گزری ۔

میدانِ کربلا میں آمد

    اب تقدیر کی خوبیاں دیکھئے کہ مظلوموں کو صبح ہوتی ہے تو کہاں ،کربلا کے میدان میں ،یہ محرم   ۶۱ھ؁ کی دوسری تاریخ اور پنج شنبہ کا دن ہے ۔عمروبن سعد اپنا لشکر لے کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے پر آگیا ہے ،اس بد بخت کو ابن زیاد بدنہادنے کفار دیلم کے جہاد پر مقرر کیا۔اورفتح کے صلے میں حکومت ''رے ''کافرمان لکھ دیا تھا۔ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خبر پائی ،بد نصیب کی نیت بدی پر آئی ،بلا کر کہاکہ:'' ادھر کا قصد ملتوی رکھ ،پہلے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہسے مقابل ہو ،فارغ ہو کر ادھر جانا۔''کہا: ''مجھے معاف کرو ۔''کہا :''بہتر مگر اس شرط پرکہ ہمارا نوشتہ واپس دے ۔'' اس نے ایک دن کی مہلت مانگ کر احباب سے مشورہ کیا،سب نے ممانعت کی اور اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے کہا : ''اے ماموں! میں تجھے خداکی قسم دیتاہوں کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقابلہ کرکے گناہ گارنہ ہو ، اللہ کی قسم! اگرساری دنیا تیری سلطنت میں ہو تواسے چھوڑنا اس سے آسان ہے کہ تُو خداعزوجل سے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا  قاتل ہو کر

ملے۔''کہا: ''نہ جاؤں گا ۔''مگر ناپاک دل میں تردد رہا، رات کو آواز آئی ،کوئی کہتاہے:

اَ اَتْرُکُ مُلْکَ الرَّیّ وَالرَّیّ رَغْبَۃ

اَمْ اَرْجِعُ مَذْمُوْماً بِقَتْلِ حُسَیْنٖ
وَفِیْ قَتْلِہِ النَّارُ الَّتِیْ لَیْسَ دُوْنَہَا

حِجَاب وَ مُلْکُ الرَّیّ قُرَّۃُ عین

 کہا: رے کی حکومت چھوڑدوں!اوروہ بڑی مرغوب چیز ہے یاقتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذمت گوارا کروں اور ان کے قتل میں وہ آگ ہے جس کی روک نہیں اور رے کی سلطنت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

 (المرجع السابق،ص۴۱۲)

    آخر قتلِ امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی پر رائے قرارپائی ،بے دین نے اَلدِّیْنُ مَزْرَعَۃُ الدُّنْیَا کی ٹھہرائی۔

امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پانی بندہونا

    عمرو بن سعد نے فرات کے گھاٹوں پر پانسو سواربھیج کر ،ساقی کوثر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹےرضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پانی بند کیا۔ایک رات امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بُلا بھیجا، دونوں لشکروں کے بیچ میں حاضر آیا ۔دیر تک باتیں رہیں ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھایا کہ'' اہلِ باطل کا ساتھ چھوڑ۔'' کہا'' میراگھرڈھایا جائے گا ۔'' فرمایا :''اس سے بہتر بنوادوں گا ۔'' کہا ''میری جائیدادچھن جائے گی ۔'' ارشاد ہوا: ''اس سے اچھی عطا فرماؤں گا ۔ '' (المرجع السابق،۴۱۳)

ابن سعدکاابن زیاد کو مصلحت آمیز خط اور شمر کا امام کے خلاف ورغلانا

    تین چارراتیں یہی باتیں رہیں ،جن کااثر اس قدر ہوا کہ ابن سعدنے ایک صلح آمیز خط ابن زیا د کو لکھاکہ'' حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتے ہیں یاتومجھے واپس جانے دو

یایزید کے پاس لے چلو یا کسی اسلامی سرحد پر چلا جاؤں ،اس میں تمہاری مراد حاصل ہے ۔'' حالانکہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید پلید کے پاس جانے کو ہرگزنہ فرمایا تھا ،ابن زیاد نے خط پڑھ کر کہا:''بہتر ہے۔''شمر ذِی الْجَوْشَن خبیث بولا :''کیا یہ باتیں مانے لیتاہے ؟خداکی قسم! اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہبے تیری اطاعت کئے چلے گئے توان کے لئے عزت وقوت ہوگی اور تیرے واسطے ضعف وذلت،یوں نہیں بلکہ تیرے حکم سے جائیں ،اگرتُوسزا دے تو مالک ہے اور اگرمعاف کرے تو تیرا احسان ہے ،میں نے سنا ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن سعد میں رات رات بھر باتیں ہوتی ہیں ۔'' ابن زیاد نے کہا:''تیری رائے مناسب ہے تُومیرا خط ابن سعد کے پاس لے جا اگروہ مان لے تو اس کی اطاعت کرنا ورنہ تُوسردارِ لشکرہے اور ابن سعد کاسرکاٹ کر میرے پاس بھیج دینا ۔''پھر ابن سعدکولکھا کہ ''میں نے تجھے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس لئے بھیجا تھا کہ توان سے دست کش ہو یاامیددلائے اورڈھیل دے یا ان کا سفارشی بنے،دیکھ! حسین سے میری فرمانبرداری کے لئے کہہ،اگرمان لیں تومطیع بنا کر یہاں بھیج دے ورنہ انہیں اوران کے ساتھیوں کو قتل کر ،اگرتو ہمارا حکم مانے گا توتجھے فرماں برداری کا انعام ملے گا ورنہ ہمارالشکر شمر کے لئے چھوڑدے ۔ ''
    جب شمر نے خط لیا توعبداللہ ابن ابی المحل بن حزام اس کے ساتھ تھا ،اس کی پھوپھی ام البنین بنت حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہا مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی زوجہ اور پسرانِ مولیٰ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہم ،حضرت عباس وعثمان وعبداللہ وجعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہمکی والدہ تھیں ،اس نے ابن زیاد سے اپنے ان پھوپھی زاد بھائیوں کے لئے امان مانگی، اس نے لکھ دی ۔وہ خط اس نے ان صاحبوں کے پاس بھیجا ،انہوں نے فرمایا: ''ہمیں

تمہاری امان کی حاجت نہیں ،ابن سمیہ کی امان سے اللہ تعالیٰ کی امان بہتر ہے۔ ''

                                (المرجع السابق،ص۴۱۴)



0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More