شمر کی ابن سعد کے پاس آمد
جب شمر نے ابن سعدکو ابن زیاد بدنہاد کا خط دیا ،اس نے کہا: ''تیرا برا ہو ، میرا خیال ہے کہ تونے ابن زیاد کو میری تحریرپرعمل کرنے سے پھیر کرکام بگاڑدیا ،مجھے صلح ہوجانے کی پوری امیدتھی،حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ توہرگزاطاعت کوقبول کریں گے ہی نہیں خداکی قسم! ان کے باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل ان کے پہلو میں رکھا ہواہے ۔'' شمرنے کہا:''اب توکیا کرنا چاہتا ہے ؟''بولا:''جو ابن زیاد نے لکھا ۔'' شمر نے عباس اور ان کے حقیقی بھائيوں کو بلا کر کہا:''اے بھانجو!تمہیں امان ہے ۔'' وہ بولے: ''اللہ کی لعنت تجھ پراور تیری امان پر، ماموں بن کر ہمیں امان دیتا ہے اور رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہکوامان نہیں ۔ '' (المرجع السابق،ص۴۱۴)
نومحرم الحرام اورخواب میں جدِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری
یہ پنجشنبہ کی شام اور محرم ۶۱ ہجری کی نویں تاریخ ہے اس وقت سردارِجوانانِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جہنمی لشکرکوجنبش دی گئی ہے اوروہ مے شہادت کا متوالا ،حیدری کچھارکا شیر ،خیمہ اطہر کے سامنے تیغ بکف جلوہ فرماہے۔آنکھ لگ گئی ہے ،خواب میں اپنے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کودیکھا ہے کہ اپنے لختِ جگر کے سینہ پردستِ اقدس رکھے فرمارہے ہیں ''اَللّٰھُمَّ اَعْطِ الْحُسَیْنَ صَبْراًوَّاَجْراً'' الٰہی!عزوجل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبرواجرعطا کر۔ اورارشادہوتاہے کہ'' اب عنقریب ہم سے
ملاچاہتے ہو اور اپنا روزہ ہمارے پاس آکرافطارکیا چاہتے ہو ۔'' جوشِ مسرت میں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی ،ملاحظہ فرمایاکہ دشمن حملہ آوری کا قصد کررہے ہیں ،جمعہ کے خیال اور پسماندوں کووصیت کرنے کی غرض سے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات کی مہلت چاہی۔ابن سعد نے مشورہ لیا۔ عمروبن حجاج زبیدی نے کہا: ''اگر دیلم کے کافر بھی تم سے ایک رات کی مہلت مانگتے تودینی چاہے تھی ۔'' غرض مہلت دی گئی ۔
(المرجع السابق،ص۴۱۵)
لشکرامامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہکی طرف سے مقابلے کی تیاری
یہاں یہ کارروائی ہوئی کہ سب خیمے ایک دوسرے کے قریب کردئیے گئے، طنابوں سے طنابیں ملادیں ،خیموں کے پیچھے خندق کھود کر نرکل وغیرہ خشک لکڑیوں سے بھردی۔اب مسلمان ان کاموں سے فارغ ہوکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہاپنے اہل اور ساتھیوں سے فرما رہے ہیں:''صبح ہمیں دشمنوں سے ملنا ہے ،میں نے بخوشی تمام تم سب کواجازت دی ،ابھی رات باقی ہے جہاں جگہ پاؤچلے جاؤ اورایک ایک شخص میرے اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ایک ایک کو ساتھ لے جاؤ ،اللہ عزوجل تم سب کو جزائے خیر دے،دیہات وبلادمیں متفرق ہوجاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بلا ٹالے ،دشمن جب مجھے پائیں گے ،تمہاراپیچھا نہ کریں گے ۔''یہ سن کرامام کے بھائیوں،صاحبزادوں ،بھتیجوں اورعبداللہ ابن جعفر کے بیٹوں نے عرض کی: ''یہ ہم کس لئے کریں اس لئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد زندہ رہیں، اللہ عزوجل ہمیں وہ منحوس دن نہ دکھائے کہ آپرضی اللہ تعالیٰ عنہنہ ہوں اور ہم باقی ہوں۔ ''
مسلم شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائیوں سے فرمایاگیا:''تمہیں مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہہی کا قتل ہوناکافی ہے۔ میں اجازت دیتا ہوں ،تم چلے جاؤ۔ ''عرض کی: اور ہم لوگوں سے جاکرکیا کہیں ؟یہ کہیں کہ'' اپنے سردار،اپنے آقا،اپنے سب سے بہتر بھائی کو دشمنوں کے نرغے میں چھوڑآئے ہیں۔ نہ ان کے ساتھ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا،نہ تلوارچلائی اور ہمیں خبر نہیں کہ ہمارے چلے آنے کے بعد ان پرکیا گزری ۔خداکی قسم! ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے بلکہ اپنی جانیں ،اپنے بال بچے تمہارے قدموں پر فداکر دیں گے، تم پر قربان ہو کر مر جائیں گے اللہ اس زندگی کا براکرے جو تمہارے بعد ہو ۔ ''
خوشا حالے کہ گردم گردِ کویت
رخے بر خوں گریباں پارہ پارہ
(یعنی وہ سماں بہت اچھا ہوگا جب میں تیرے کوچے کے اردگرد پھروں گا اس حالت میں کہ میرا چہرہ خون آلودہ اور گریبان ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔)
مسلم بن عوسجہ اسدی نے عرض کی:''کیاہم حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ کر چلے جائیں اور ابھی ہم نے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی حق اداکرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے معذرت کی جگہ نہ پیداکی،خداکی قسم! میں تو آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ کاساتھ نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ اپنا نیزہ دشمنوں کے سینوں میں توڑدوں اورجب تک تلوار میرے ہاتھ
میں رہے ،وار کئے جاؤں ،خدا گواہ ہے اگرمیرے پاس ہتھیار بھی نہ ہوتے تومیں پتھر مارتا،یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے ساتھ مارا جاتا۔'' اسی طرح اورسب ساتھیوں نے بھی گزارش کی ۔اللہ عزوجل ان سب کو جزائے خیر دے۔ (المرجع السابق) اورجنات الفردوس میں امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاساتھ اور ان کے جد کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا
سایہ عطافرمائے اوردنیاوآخرت وقبروحشر میں ہمیں ان کے برکات سے بہرہ مندی بخشے ۔ اٰمین اٰمین یا ارحم الراحمین
اسی رات میں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ ایسے شعر پڑھے جن کا مضمون حسرت و بے کسی کی تصویرآنکھوں کے سامنے کھینچ دے ،زمانہ صبح وشام خداعزوجل جانے کتنے دوستوں اور عزیزوں کو قتل کرتاہے اورجسے قتل کرنا چاہتا ہے اس کے بدلے میں دوسرے پر راضی نہیں ہوتا ۔ہونے والے واقعے کی خبر دینے والی دل خراش آواز حضرت زینب رضی اللہ عنہاکے کان میں پہنچی،صبرنہ ہو سکا بے تاب ہو کر چلاتی ہوئی دوڑیں،'' کاش! اس دن سے پہلے مجھے موت آگئی ہوتی ،آج میری ماں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکاانتقال ہوتا ہے ،آج میرے با پ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا سے گزرتے ہیں ،آج میرے بھائی حسنرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ نکلتا ہے ،اے حسین ! رضی اللہ تعالیٰ عنہاے گزرے ہوؤں کی نشانی اور پسماندوں کی جائے پناہ !''پھر غش کھا کر گر پڑیں ۔
اللہ اکبر! آج مالک کوثرکے گھر میں اتنا پانی بھی نہیں کہ بے ہوش بہن کے منہ پر چھڑکا جائے ۔جب ہوش آیا توفرمایا: ''اے بہن! رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ عزوجل سے ڈرو اور صبر کرو ، جان لو سب زمین والوں کو مرنا اور سب آسمان والوں کوگزرنا ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو فنا ہے ، میرے باپ،میری ماں ،میرے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہممجھ سے بہترتھے۔ ہرمسلمان کو رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی راہ چلنی چاہیئے۔ ''
(المرجع السابق،ص۴۱۶،ملخصاً)
اب قیامت قائم ہوتی ہے
بہاروں پرہیں آج آرایشیں گلزارِ جنت کی
سواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی
کھلے ہیں گل بہاروں پر ہے پھلواڑی جراحت کی
فضا ہر زخم کے دامن سے وابستہ ہے جنت کی
گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں امت کی
کوئی تقدیر تو دیکھے اسیرانِ مصیبت کی
شہیدِ ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیوں کر ہو
ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغ ِجنت کی
کرم والوں نے در کھولا تو رحمت کا سماں باندھا
کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل ِشہادت کی
علی کے پیارے خاتون ِقیامت کے جگر پارے
زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی
زمینِ کر بلا پر آ ج مجمع ہے حسینوں کا
جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نورو طلعت کی
یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو
یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جان تازہ پائیں پروانے
یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی
یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے روح ہو کافور ظلمت کی
دلِ حورو ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر
کہ بزمِ گلرخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی
جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی
اسی منظر پہ ہرجانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں
اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی
ہوا چھڑکاؤ پانی کی جگہ اشکِ یتیماں سے
بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہلِ بصیرت کی
ہوائے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے
سبیلیں رکھی ہیں دیدارنے خود اپنے شربت کی
ادھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے
ادھر ساغر لئے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی
سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے
بہارِ خوشنمائی پر ہے صدقے روح جنت کی
ہوائیں گلشنِ فردوس سے بس بس کر آتی ہیں
نرالے عطر میں ڈوبی ہوئی ہے روح نکہت کی
دل پرسوز کے سلگے اگر سوز ایسی کثرت سے
کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لپٹ سوزِ محبت کی
ادھر چلمن اٹھی حسن ازل کے پاک جلوؤں سے
ادھر چمکی تجلی بدرِ تابانِ رسالت کی
زمینِ کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے
کہ کھنچ کھنچ کر مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی
گھٹائیں مصطفی کے چاند پر گھِرگھِرکر آتی ہیں
سیہ کارانِ امت تیرہ بختانِ شقاوت کی
یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اس کے خون کے پیاسے
بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامانِ قیامت کی
اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وارچلتے ہیں
مٹادی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی
مگر شیرِخدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا
پرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی
کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوشِ دلیری نے
بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اس شجاعت کی
تصدق ہو گئی جانِ شجاعت سچے تیور کے
فدا شیرانہ حملوں کی ادا پر روح جرأت کی
نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے
نکل آتی زمینِ کربلا سے نہر جنت کی
مگرمقصود تھا پیاسا گلا ہی ان کو کٹوانا
کہ خواہش پیاس سے بڑھتی رہے رویت کے شربت کی
شہیدِ ناز رکھ دیتا ہے گردن آبِ خنجر پر
جو موجیں باڑھ پر آجاتی ہیں دریائے الفت کی
یہ وقتِ زخم نکلا خون اچھل کرجسمِ اطہر سے
کہ روشن ہوگئی مشعل شبستانِ محبت کی
سرِ بے تن تن ِآسانی کو شہرِ طیبہ میں پہنچا
تن بے سر کو سرداری ملی ملکِ شہادت کی
حسنؔ سُنّی ہے پھر افراط وتفریط اس سے کیوں کر ہو
ادب کے ساتھ رہتی ہے روش اربابِ سنت کی
دس محرم الحرام اور خاندانِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ظلم وستم کا آغاز
روزِعاشورا کی صبح جانگزا آتی اورجمعے کی سحر محشر زامنہ دکھاتی ہے ۔امام عرشمقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ،خیمہ اطہرسے برآمدہوکر اپنے بَہتّرساتھیوں، بتیس سواروں ، چالیس پیادوں کا لشکر ترتیب دے رہے ہیں ۔داہنے بازو پرزہیربن قین ، بائیں پر حبیب بن مطہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرداربنائے گئے اور نشان برداری پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقرر فرمائے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ خندق کی لکڑیوں میں آگ دے دی جائے کہ دشمن ادھر سے راہ نہ پائیں ۔اس انتظام کے بعد امام جنت مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہیہ شہادت کے واسطے پاکی لینے تشریف لے گئے ۔عبد الرحمن بن عبد ربہ ،یزید بن حصین ہمدانی رضی اللہ تعالیٰ عنہماخیمے کے دروازے پر منتظرہیں کہ بعد فراغِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بھی یہ سنت ادا کریں۔ ابن حصین نے عبد الرحمن سے کچھ ہنسی کی بات کہی ، وہ بولے: ''یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟'' کہا :''خداگواہ ہے میری قوم بھر کو معلوم ہے کہ جوانی میں بھی کبھی میری ہنسی کی عادت نہ تھی، اس وقت میں اس چیز کے سبب سے خوش ہورہا ہوں جوابھی ملاچاہتی ہے۔تم اس لشکرکودیکھتے ہوجوہمارے مقابلہ کے لئے تلاکھڑا ہے، خدا کی قسم ہم میں اورحوروں کی ملاقات میں اتنی ہی دیر باقی ہے کہ یہ تلواریں لے کر ہم پرجھک پڑیں ۔''
امام جنت مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر تشریف لائے اور ناقہ پر سوارہوکراتمامِ حجت کے لئے اشقیا کی طرف تشریف لے گئے قریب پہنچ کر فرمایا: ''لوگو! میری بات غور سے سنو اورجلدی نہ کرو اگرتم انصاف کروتوسعادت پاؤ ورنہ اپنے ساتھیوں کوجمع
کرواور جو کرنا ہے کرگزرو،میں مہلت نہیں چاہتا ،میرا اللہ جس نے قرآن اتارااور جو نیکوں کو دوست رکھتا ہے' میرا کارسازہے ۔''
امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ آواز ان کی بہنوں کے کان تک پہنچی بے اختیار ہو کر رونے لگیں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاموش کرنے کے لئے بھیج کر فرمایا:'' خدا کی قسم!انہیں بہت رونا ہے۔'' پھر اشقیاکی طرف متوجہ ہوکرفرمانے لگے: ''ذرا میرانسب توبیان کرواورسوچوتو میں کون ہوں؟۔۔۔۔۔۔اپنے گریبان میں منہ ڈالو ،کیا میرا قتل تمہیں روا ہوسکتاہے ؟۔۔۔۔۔۔ میری بے حرمتی تم کوحلال ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔۔۔کیامیں تمہارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کانواسہ نہیں؟۔۔۔۔۔۔کیا تم نے نہ سُناکہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی کوفرمایا: تم دونوں جوانانِ اہل جنت کے سردار ہو؟۔۔۔۔۔۔کیا اتنی بات تمہیں میری خوں ریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں؟۔۔۔۔۔۔''
شمرمردک نے کہا:''ہم نہیں جانتے تم کیا کہہ رہے ہو ۔''حبیب بن مطہر نے فرمایا :''اللہ عزوجل نے تیرے دل پر مہرکردی تُوکچھ نہیں جانتا ۔''پھر امام مظلوم نے فرمایا :''خداکی قسم!میرے سوا روئے زمین پر کسی نبی علیہ السلام کا کوئی نواسہ باقی نہیں۔ بتاؤ تو میں نے تمہاراکوئی آدمی مارا؟۔۔۔۔۔۔یامال لُوٹایاکسی کو زخمی کیا؟۔۔۔۔۔۔آخرمجھ سے کس بات کا بدلہ چاہتے ہو ؟۔۔۔۔۔۔''کوئی جوابدہ نہ ہوا،تونام لے کرفرمایا:'' اے شبث بن ربعی! اے حجاربن ابجر!اے قیس بن اشعث!اے زیدبن حارث!کیا تم نے مجھے خطوط نہ لکھے؟'' وہ خبیث صاف مکر گئے۔ فرمایا:''ضرور لکھے ۔''پھر ارشاد ہوا:''اے لوگو! اگرتم مجھے ناپسند رکھتے ہو توواپس جانے دو۔''اس پر بھی کوئی راضی نہ ہوا۔پھر
فرمایا: ''میں اپنے اور تمہارے رب عزوجل کی پناہ مانگتاہوں اس امرسے کہ مجھے سنگسار کرو اور پناہ مانگتا اس مغرور سے جو قیامت کے دن پرایمان نہ لائے ۔''یہ فرماکر ناقہ شریف سے اترآئے۔
زہیربن قین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہتھیارلگائے گھوڑے پرسوارآگے بڑھے اورکہنے لگے: '' اے اہلِ کوفہ !عذابِ الٰہی عزوجل جلد آتاہے ۔مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ نصیحت کرے ،ہم تم ابھی دینی بھائی ہیں ،جب تلوار اٹھے گی تم الگ گروہ ہو گے ہم الگ۔ ہمیں تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اولادکے بارے میں آزمایا ہے کہ ہم تم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔میں تمہیں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد کے لئے بلاتا اور سرکش ابن سرکش ابن زیاد کی اطاعت سے روکنا چاہتا ہوں، تم اس سے ظلم وستم کے سوا کچھ نہ دیکھو گے ۔''
کوفیوں نے کہا:''جب تک تمہیں اور تمہارے سردار کو قتل نہ کرلیں یا مطیع بنا کر ابن زیادکے پاس نہ بھیج دیں ہم یہاں سے نہ ٹلیں گے ۔''
زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''خداکی قسم !فاطمہ کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہماسمیہ کے بیٹے سے زیادہ مستحقِ محبت ونصرت ہیں ،اگرتم ان کی مدد نہ کروتوان کے قتل کے بھی درپے نہ ہو۔''اس پرشمرمردودنے ایک تیرمارکرکہا:''چپ!بہت دیرتک تونے ہمارا سر کھایا ہے ۔ ' '
زہیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اوایڑیوں پرموتنے والے گنوارکے بچے !میں تجھ سے بات نہیں کرتا،تُونراجانورہے ،میرے خیال میں تجھے قرآن کی دو آیتیں بھی نہیں آتیں ،تجھے قیامت کے دن دردناک عذاب اور رسوائی کا مژدہ ہو۔''
شمربولا:'' کوئی گھڑی جاتی کہ تُواورتیراسردارقتل کیا جاتاہے۔''
فرمایا:''کیا مجھے موت سے ڈراتاہے ؟خداکی قسم! ان کے قدموں پرمرناتم لوگوں کے ساتھ ہمیشہ جینے سے پسند ہے ۔''پھربلند آوازسے کہنے لگے:''اے لوگو! یہ بے ادب اجڈفریب دیتااوردین حق سے بے خبرکرناچاہتا ہے ،جولوگ اہلِ بیت علیہم الرضوان یاان کے ساتھیوں کو قتل کریں گے،خداکی قسم!محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت انہیں نہ پہنچے گی۔'' امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس بلایا۔
(المرجع السابق،ص۴۱۷)
اب شقی ابن سعد نے اپنے ناپاک لشکر کو امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف حرکت دی۔ حرنے کہا: ''تجھے اللہ کی مار، کیا تو ان سے لڑے گا ؟''کہا: ''لڑوں گا اورایسی لڑائی لڑوں گا،جس کا ادنٰی درجہ سروں کا اڑنا اور ہاتھوں کا گرنا ہے ۔''کہا:''وہ تین باتیں جو انہوں نے پیش کی تھیں تجھے منظور نہیں ؟''کہا: ''میرا اختیارہوتاتومان لیتا۔''
(الکامل فی التاریخ،انضمام الحر...الخ،ج۳،ص۴۲۰ملخصاً)
حضرت حررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معذرت
حر مجبورانہ لشکر کے ساتھ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بڑھے مگریوں کہ بدن کانپ رہا ہے اور پہلو میں دل کے پھڑکنے کی آوازبغل والے سن رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے ایک ہم قوم نے کہا :''تمہارا یہ کام شبہ میں ڈالتا ہے ،میں نے کسی لڑائی میں تمہاری یہ کیفیت نہ دیکھی، مجھ سے اگر کوئی پوچھتاہے کہ تمام اہلِ کوفہ میں بہادرکون ہے ؟تو میں تمہارا ہی نام لیتاہوں ۔''بولے: ''میں سوچتاہوں کہ ایک طرف جنت کے
خوش رنگ پھول کھلے ہیں اور ایک جانب جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے بلند ہورہے ہیں اور میں اگر پرزے پرزے کر کے جلا دیا جاؤں توجنت چھوڑنا گوارانہ کروں گا۔'' یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑی دی اورامام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ پھر عرض کی:''اللہ عزوجل مجھے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہپر قربان کرے ،میں حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہی ساتھی ہوں جس نے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوواپس جانے سے روکا، جس نے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حراست میں لیا،خداکی قسم!مجھے یہ گمان نہ تھا کہ یہ بدبخت لوگ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد قبول نہ کریں گے اور یہاں تک نوبت پہنچائیں گے ، میں اپنے جی میں کہتاتھا خیر بعض باتیں ان کی کہی کر لوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہماری اطاعت سے نکل گیا اور انجام کارتووہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشادکچھ نہ کچھ مان ہی لیں گے اورخداکی قسم! مجھے یہ گمان ہو کہ یہ کچھ نہ مانیں گے تو مجھ سے اتنا بھی ہرگزواقع نہ ہو، اب میں تائب ہو کر حاضرآیا ہوں اوراپنی جان حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان کرنی چاہتا ہوں ،کیامیری توبہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مقبول ہو جائے گی ؟''فرمایا: ''ہاں!اللہ عزوجل توبہ قبول کرنے والااورگناہ بخش دینے والا ہے ۔''
حُررضی اللہ تعالیٰ عنہیہ مژدہ سن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے اور فرمانے لگے: ''کیا وہ باتیں جو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش کی تھیں منظورنہیں ؟''ابن سعد نے کہا:''ان کا ماننا میری قدرت سے باہر ہے۔''فرمایا:'' اے کوفیو! تمہاری مائیں بے اولادی ہوں ۔۔۔۔۔۔ تمہاری ماؤں کوتمہارا رونانصیب ہو ۔۔۔۔۔۔کیا تم نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دینے کے لئے بلایا تھا؟۔۔۔۔۔۔ کیاتم نے وعدہ نہ کیا تھا کہ اپنی جانیں ان پر نثارکر وگے ؟۔۔۔۔۔۔اوراب تمھیں ان کے قتل پرآمادہ ہو ؟یہ بھی منظورنہیں کہ وہ اللہ عزوجل
کے کسی شہر میں چلے جائیں جہاں وہ اوران کے بال بچے امان پائیں ۔۔۔۔۔۔تم نے انہیں قیدی بے دست وپا بنا رکھا ہے ،۔۔۔۔۔۔فرات کا بہتا پانی جسے خداعزوجل کے دشمن پی رہے ہیں اورگاؤں کے کتے سؤرجس میں لوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بچوں پربند کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔پیاس کی تکلیف نے انہیں زمین سے لگادیاہے ۔۔۔۔۔۔تم نے کیابرامعاملہ کیا ذریتِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ۔۔۔۔۔۔اگرتم توبہ نہ کرو اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آؤ تواللہ عزوجل تمہیں قیامت کے دن پیاسا رکھے ۔''
(المرجع السابق،ص۴۲۱)
مقابلے کا باقاعدہ آغاز
اس کے جواب میں ان خبیثوں نے حضرتِ حررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پتھر پھینکنے شروع کئے، یہ واپس ہو کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آگے کھڑے ہوگئے ،لشکر اشقیا سے زیاد کاغلام یساراورابن زیاد کا غلام سالم میدان میں آئے اور اپنے مقابلہ کے لئے مبارز طلب کرنے لگے ۔حضرت عبداللہ ابن عمیر کلبیرضی اللہ تعالیٰ عنہسامنے آئے ،دونوں بولے ہم تمہیں نہیں جانتے ،زہیربن قین رضی اللہ تعالیٰ عنہیا حبیب بن مطہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا بریر بن خضیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوہمارے مقابلہ کے لئے بھیجو۔حضرتِ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یسارسے فرمایا:'' اوبدکارعورت کے بچے تُومجھ سے نہ لڑے گا ؟تیری لڑائی کے لئے بڑے بڑے چاہیں؟۔'' یہ فرما کر ایک ہاتھ مارا وہ قتل ہوا،سالم نے آپ پروارکیا بائیں ہاتھ سے روکا،انگلیاں اڑ گئیں،داہنے سے وارکیا ،وہ بھی ماراگیا۔
یہ عبداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے سے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے
تھے اورانکی بی بی ام وہب ان کے ساتھ تھیں ۔وہ خیمے کی چوب لے کر جہادکے لئے چلیں اور اپنے شوہر سے کہا: ''میرے ماں باپ تیرے قربان!قتال کر ان ستھرے، پاکیزہ نبی زادوں کے لئے۔'' کہا :''تم عورتوں میں جاؤ۔''نہ مانا اورکہا: ''تمہارے ساتھ مروں گی ۔''آخرحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آوازدی کہ'' اے بی بی! اللہ عزوجل تجھ پر رحمت کرے ،پلٹ آکہ جہادعورتوں پر فرض نہیں۔'' واپس آئیں ۔پھر ابن سعد کے میمنہ سے عمرو بن الحجاج اپنے سوار لے کر آگے بڑھا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں نے گھٹنوں کے بل جھک کر نیزے سامنے کئے، گھوڑے نیزوں کی سنانوں پر نہ بڑھ سکے ،پیچھے پلٹے تو ادھر سے تیر چلائے گئے ۔وہ کتنے ہی زخمی ہوئے، کتنے ہی مارے گئے ۔
ایک مردک ابن حوزہ نے پوچھا: ''کیاتم میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہیں ؟''کسی نے جواب نہ دیا، تین بارپوچھا ،لوگوں نے کہا :''تیراکیا کام ہے؟ ''بولا:''اے حسین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہیں آگ کی بشارت ہو ۔ ''فرمایا: ''توجھوٹاہے ،میں اپنے مہربان رب عزوجل کے پاس جاؤں گا۔'' پھراس کا نام پوچھا ۔کہا :ابن حوزہ ۔دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ حزہ اِلَی النَّارِالٰہی!عزوجل اسے آگ کی طرف سمیٹ ۔''یہ سن کروہ مردود غضب ناک ہوا،حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گھوڑاچمکایا،قدرتِ خداعزوجل کہ گھوڑابھڑکااوریہ پھسلا ،ایک پاؤں رکاب میں الجھ کر رہ گیا ،اب گھوڑااُڑاچلاجاتا ہے یہاں تک کہ اس مردودکی ران اور پنڈلی ٹوٹی،سر پتھروں سے ٹکراٹکراکر پاش پاش ہوگیا، آخر اسی حال میں واصلِ جہنم ہوا۔
مسروق بن وائل حضرمی، امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِمبارک لینے کی تمنا میں
آیا تھا۔ابن حوزہ کایہ حال دیکھ کرکہنے لگا:خداکی قسم!میں تو اہلِ بیت علیہم الرضوان سے کبھی نہ لڑوں گا،پھریزیدبن معقل،حضرت بریررضی اللہ تعالیٰ عنہسے کہنے لگا: ''خدا عزوجل نے تمہارے ساتھ کیاکیا؟''فرمایا: ''اچھا کیا ۔''کہا:''تم نے جھوٹ کہا اورمیں تم کو آج سے پہلے جھوٹا نہ جانتاتھا،میں گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہ ہو ۔''فرمایا: ''تو آؤ ہم تم مباہلہ کرلیں کہ اللہ عزوجل جھوٹے پر لعنت کرے اورجھوٹا سچے کے ہاتھ سے قتل ہو ۔'' وہ راضی ہو گیا ۔مباہلہ کے بعد ابن معقل نے تلوارچھوڑی ،خالی گئی، حضرت بریررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وارکیا ،خود کاٹتاہوابھیجا چاٹ گیا۔یہ دیکھ کر رضی بن منقذ عبدی دوڑا اور حضرت بریررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لپٹ گیا ،کشتی ہونے لگی ،حضرت بریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دے مارااوراس کے سینے پر چڑھ بیٹھے ،پیچھے سے کعب بن جابرازدی نے نیزہ ماراکہ پشت مبارک میں غائب ہو گیا ،نیزہ کھا کر رضی کے سینے سے اترے اور اس مردک کی ناک دانتوں سے کاٹ لی کعب نے تلوار ماری کہ شہید ہوئے، جب کعب پلٹا،اس کی عورت نے کہا:'' میں تجھ سے کبھی بات نہ کروں گی ،تو نے فاطمہ کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہوتے دشمن کومدددی اورعالموں کے سردار بریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوشہیدکیا ۔''
(الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۲۱ملخصاً)
پھرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے عمروبن قرظہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہنکلے اورسخت لڑائی کے بعد شہید ہوئے۔ حضرتِ حررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتال ِشدید کیا ۔ یزید بن سفیان ان کے سامنے آیا ،انہوں نے اسے قتل فرمایا،نافع بن ہلال مرادی رضی اللہ تعالیٰ عنہمیدان میں آئے،مزاحم بن حریث ان کامزاحم ہوا۔ مرادی بامرادرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نامردنامرادکوقتل کیا ،یہ حالت دیکھ کرعمروبن الحجاج چلایا:''اے لوگو! تم جانتے ہو کن
سے لڑ رہے ہو ؟تمہارے سامنے وہ بہادر ہیں جنہیں مرنے کا شوق ہے ،ایک ایک ان سے میدان نہ کرو ،وہ بہت کم ہیں ،خداکی قسم !تم سب مل کر پتھرماروگے توقتل کرلو گے۔''
ابن سعد نے یہ رائے پسند کرکے لو گوں کوتنہا میدان کرنے سے روک دیا ،پھر عمروبن الحجاج نے فرات کی طرف سے حملہ کیا۔اس حملے میں مسلم بن عوسجہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت پائی ۔عمروپلٹ گیا ،ان میں ابھی رمق باقی تھی ،حبیب بن مطہر نے کہا: ''تمہیں جنت کامژدہ ہو،تمہاراگرنامجھ پرشاق ہوا،میں ابھی عنقریب تم سے ملا چاہتاہوں ،مجھے کوئی وصیت کروکہ اس پر عمل کروں۔''مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:''ان پرقربان ہو جانا۔''حبیب نے کہا ایسا ہی ہوگا ۔ پھر خبیث ابن سعد نے پانسو تیر انداز ابن نمیر کے ساتھ جماعتِ امام پربھیجے۔اب تین دن کے پیاسوں پر تیروں کا مینہ برسنا شروع ہو گیا ،امام کے ساتھی گھوڑوں سے اتر کرپیادہ ہو لئے اوریہ پیادہ ہونا اس مصلحت سے تھا کہ اس ناگہانی بلا سے کہ ایک ساتھ پانسو تیر چٹکیوں سے نکل رہا ہے ، گھبرا کرپاؤں نہ اکھڑ جائیں ،مارنا مرنا جوکچھ ہونا ہے یہیں ہو جائے ۔امام کوچھوڑ کر بھاگنے اور پیٹھ دکھانے کی راہ نہ رہے۔ حضرتِ حر سخت لڑائی لڑے ،یہاں تک کہ دوپہر ہو گیا ،ان پانسو نے ان تیس کے ساتھیوں پر کچھ قدرت نہ پائی ۔
جب شقی ابن سعد نے یہ حال دیکھا کہ سامنے سے جانے کی طاقت نہیں ،اس میدان کے داہنے بائیں کچھ مکان واقع تھے ،ان میں لوگ بھیجے کہ جماعتِ امام پر داہنے بائیں سے بھی حملہ ہو سکے ۔امام مظلوم کے تین چارساتھی پہلے سے بیٹھ رہے، جوکودا، مارلیا ۔ ابن سعد نے جل کر کہا کہ'' مکانات میں آگ لگا دی جائے ۔''امام نے
فرمایا:''جلا لینے دو،جب آگ لگ جائے گی توادھر سے حملہ کا اندیشہ نہ رہے گا ۔''
(المرجع السابق،ص۴۲۳)
شمر مردود حملہ کرکے خیمہ اطہرکے قریب پہنچا اور جنت والوں کاخیمہ پھونکنے کو جہنمی نے آگ مانگی ۔اس کے ساتھی حمید بن مسلم نے کہا کہ ''خیمے کو آگ دے کر عورتوں،بچوں کوقتل کرنا ہرگز مناسب نہیں۔''اس دوزخی نے نہ مانا ۔شبث بن ربعی کوفی نے کہ اس ناپاک لشکر کے سرداروں میں تھا،اس ناری کو آ گ لگانے سے باز رکھا۔ اس عرصے میں حضرت زہیربن قین دس صاحبوں کے ساتھ شمر مردودکے لشکر پر ایسی سختی سے حملہ آورہوئے کہ ان بد بختوں کو بھاگتے اور پیٹھ دکھاتے ہی بن پڑی ۔اس حملے میں ابوعزہ مارا گیا ۔دشمنوں نے جمع ہو کر ان گیارہ پرپھر ہجوم کیا ۔ان میں سے جتنے مارے جاتے کثرت کی وجہ سے معلوم بھی نہ ہوتے اور ان میں کاایک بھی شہید ہوتا توسب پر ظاہر ہوجاتا۔اسی عرصہ میں نمازِ ظہرکاوقت آگیا ۔حضرت ابوثمامہ الصائدی نے امام سے عرض کی:''میری جان حضورپرقربان میں دیکھتا ہوں کہ اب دشمن پاس آگئے ، خداکی قسم !جب تک میں اپنی جان حضور پرنثار نہ کرلوں ،حضور شہید نہ ہوں گے، مگر آرزویہ ہے کہ ظہرپڑھ کراللہ تعالیٰ سے ملوں ۔''امام نے فرمایا: ''ہاں ! یہ اول وقت ہے ،ان سے کہو اس قدر مہلت دیں کہ ہم نماز پڑھ لیں ۔''امام کی کرامت کہ یہ بات ان بے دینوں نے قبول کرلی ۔
ابن نمیر مردک نے کہا ''یہ نمازقبول نہ ہوگی ۔''حضرت حبیب بن مطہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''آلِ رسول کی نماز قبول نہ ہو گی اور اے گدھے تیری قبول ہوگی ؟''اس نے ان پر وارکیا ،انہوں نے خالی دے کر تلوارماری ،گھوڑے پرپڑی ،گھوڑا گرااور اس
کے ساتھ وہ مردود بھی زمین پر آیا ،اس کے ہمراہی جلدی کرکے اسے اٹھا لے گئے۔ پھر انہوں نے قتال شدید کیا ۔بنی تمیم سے بدیل بن صریم کوقتل فرمایا ،دوسرے تمیمی نے ان کے نیزہ مارا ،اٹھناچاہتے تھے کہ ابن نمیر خبیث نے تلوار چھوڑدی ،شہید ہوگئے ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، ان کی شہادت کا امام کو سخت صدمہ ہوا۔
اب حضرت حر اور زہیر بن قین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ شروع کیا کہ ایک ان خبیثوں پر حملہ فرماتے، جب وہ اس ہربونگ میں گھر جاتے ،دوسرے لڑبھڑ کر چھٹا لاتے ،جب یہ گھِرکرغائب ہو جاتے ،وہ پہلے حملہ کرتے اور بچالاتے ۔دیر تک یہی حالت رہی پھر پیادوں کا لشکر حضرت حر پرٹوٹ پڑا اورانہیں شہید کیا ۔
(الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۲۵ملخصاً)
روضۃ الشہداء میں ہے جب حرزخمی ہو کرگرے امام کوآوازدی ،حضرت بے قرار ہوکرتشریف لے گئے اورسخت جنگ فرما کر اٹھا لائے ،زمین پر لٹا دیا اور ان کاسر اپنے زانوپر رکھ کر پیشانی اور رخساروں کی گرد دامن سے پونچھنے لگے ۔حر نے آنکھ کھول دی اوراپناسر امام کے زانو پرپاکرمسکرائے اور عرض کی: ''حضور!اب تومجھ سے خوش ہوئے؟'' فر مایا'' ہم راضی ہیں ،اللہ بھی تم سے راضی ہو ۔''حر نے یہ مژدہ جاں فزا سن کرامام پرنقدجاں نثارکی اوربہشت بریں کی راہ لی ۔
آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمہارے سامنے
تم ہمارے سامنے ہو ہم تمہارے سامنے
صلائے قصہ خواں فرقت کی شب سو یہ کہانی ہے
تیرے زانو ہی کے تکيے پہ مجھ کو نیند آنی ہے
حر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد سخت لڑائی شروع ہوئی۔دشمن کٹتے جاتے اور آگے بڑھتے جاتے ،کثرت کی وجہ سے کچھ خیال نہ لاتے ،یہاں تک کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب پہنچ گئے اور تشنہ کاموں پرتیروں کامینہ برسانا شروع کردیا،یہ حالت دیکھ کر حضرت حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکو اپنی پیٹھ کے پیچھے لے لیا اوراپنے چہرے اور سینے کو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپر بنا کر کھڑے ہوگئے۔ دشمن کی طرف سے تیر پرتیر آرہے ہیں اوریہ کامل اطمینان اور پوری خوشی کے ساتھ زخم پرزخم کھارہے ہیں ۔اس وقت اس شرابِ محبت کے متوالے نے اپنے معشوق ،اپنے دلربا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہکو پیٹھ کے پیچھے لے کر جنگِ احد کا سماں یاد دلا یا ہے ،وہاں بھی ایک عاشق جانباز مسلمانوں کی لڑائی بگڑجانے پر سید المحبوبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دشمنوں کے حملوں کی سپر بن کرآکھڑاہواتھا ،یہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، حضورپُرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم انہیں کے پیچھے قیام فرماتھے اوردشمنوں کے دفع کرنے کو ترکش سے تیر عطافرماتے جاتے اور ہرتیر پرارشاد ہوتا ''اِرْمِ سَعَد بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ''تیر ماراے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ قربان ۔اللہ عزوجل کی شان،جنگِ احد میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری کی وہ کیفیت کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سپربن گئے اوردشمنوں کوقریب نہ آنے دیا اورواقعہ کربلا میں ابن سعد کی زیاں کاری کی یہ حالت کہ دشمنوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے کے مقابلہ پر لایا ہے۔ بزرگوارباپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تیر اسلام کے دشمنوں پر چل رہے تھے، ناہنجار بیٹے کے تیر مسلمانوں کے سردار پر چھوٹ رہے ہیں۔
ع ببیں تفاوت رہ ازکجاست تابکجا
(یعنی دیکھ!رستوں کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے۔)
غرض حضرت حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہاں تک تیر کھائے کہ شہید ہو کرگرپڑے،حضرت زہیربن قینرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طوفان بے تمیزی کے روکنے میں جان توڑ کوشش کی اور سخت لڑائی لڑکر شہید ہوگئے ۔حضرت نافع بن ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیروں پر اپنا نام کندہ کراکر زہرمیں بجھایا تھا ۔ان سے بارہ شقی قتل کئے اوربے شمارزخمی کرڈالے ۔دشمن ان پر بھی ہجوم کر آئے،دونوں بازوؤں کے ٹوٹ جانے کے سبب سے مجبورہو کر گرفتارہوگئے ۔شمر خبیث انہیں ابن سعدکے پاس لے گیا۔ ہلال کے چاندکاچہرہ خون سے بھرا تھا اور وہ بپھراہواشیرکہہ رہا تھا :''میں نے تم میں کے۱۲ گرائے اوربے گنتی گھائل کئے ،اگرمیرے ہاتھ نہ ٹوٹتے تو میں گرفتار نہ ہوتا ۔''شمر نے ان کے قتل پر تلوار کھینچی، فرمایا: ''تومسلمان ہوتا ،توخداکی قسم! ہماراخون کرکے خداعزوجل سے ملنا پسندنہ کرتا،اس خدا عزوجل کے لئے تعریف ہے جس نے ہماری موت بدترانِ خلق کے ہاتھ پر رکھی۔''شمر نے شہید کردیا۔پھر باقی مسلمانوں پر حملہ آورہوا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب ان میں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کرنے کی طاقت نہ رہی ،شہید ہونے میں جلدی کرنے لگے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ ہمارے جیتے جی امام عرش مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی صدمہ پہنچے ۔ حضرت عبداللہ وعبد الرحمن پسرانِ عروہ غفاری اجازت لے کر بڑھے اورلڑائی میں مشغول ہو کر شہید ہو گئے ۔
سیف بن حارث اور مالک بن عبدرضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ دونوں ایک ماں کے بیٹے اورباپ کی طرف سے چچا زاد تھے ،حاضرِ خدمت ہو کر رونے لگے ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''کیوں روتے ہو؟کچھ ہی دیر باقی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھیں
ٹھنڈی کرتا ہے۔''عرض کی:'' واللہ! ہم اپنے لئے نہیں روتے بلکہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے روتے ہیں کہ اب ہم میں حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محافظت کی طاقت نہ رہی ۔'' فرمایا:'' اللہ عزوجل تمہیں جزائے خیر دے ۔''بالآخریہ دونوں بھی رخصت ہو کر بڑھے اور شہید ہوگئے ۔
حنظلہ بن اسعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے قرآن مجید کی کچھ آیات پڑھیں اور کوفیوں کو عذابِ الہی سے ڈرایا مگروہاں ایسی کون سنتا تھا ،یہ بھی سلام کر کے گئے اور دادِ شجاعت دے کرشہید ہوگئے ۔شوذب بن شاکررضی اللہ تعالیٰ عنہ رخصت پا کر بڑھے اور شہادت پا کر دار السلام پہنچے ۔حضرت عابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجازت لے کرچلے اور مبارِزمانگا ان کی مشہور بہادری کے خوف سے کوئی سامنے نہ آیا۔ ابن سعدنے کہا:''انہیں پتھروں سے مارو ۔''چاروں طرف سے پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔جب انہوں نے ان نامردوں کی یہ حرکت دیکھی، طیش میں بھر کر زرہ اتار، خود پھینک، حملہ آور ہوئے ،دم کے دم میں سب کو بھگادیا۔ دشمن پھر حواس جمع کر کے آئے اور انہیں بھی شہید کیا ۔
یزید بن ابی زیاد کندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کوفے کے لشکر میں تھے اورنارسے نکل کرنورمیں آگئے تھے ،دشمنوں پر تیر مارنے شروع کئے ،ان کے ہرتیر پرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعافرمائی: ''الٰہی!عزوجل اس کا تیر خطانہ ہو اوراسے جنت عطافرما۔''سوتیر مارے جن میں پانچ بھی خطانہ گئے ،آخر کارشہید ہوئے ۔اس واقعہ میں سب سے پہلے انہوں ہی نے شہادت پائی اورشہیدانِ کربلا کی ترتیب وار فہرست، انہیں کے نام سے شروع ہوئی ہے ،عمرو بن خالد مع سعد مولی وجباربن حارث ومجمع بن عبیداللہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہم لڑتے لڑتے دشمنوں میں ڈوب گئے ۔اس وقت اشقیا نے سخت حملہ کیا ،حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حملہ فرماکر چھڑا لائے ۔زخموں میں چُور تھے اسی حال میں دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ۔
0 comments:
Post a Comment