Ustad-e-Zaman >> Aina-e-Qayamat Blog P 4



چمنِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مہکتے پھولوں کی شہادت کی ابتدا

   اب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وفادار اور جاں نثار سپاہیوں میں چندرشتہ داروں کے سوا کوئی باقی نہ رہا ،ان حضرات میں سب سے پہلے جودشمنوں کے مقابلہ پرتشریف لائے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت علی اکبر  ۱؎  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔شیروں کے حملے مشہورہیں ،پھریہ شیرتو محمدی کچھارکا شیرہے ۔اسکے جھنجھلائے ہوئے حملہ سے خداعزوجل کی پناہ ،دشمنوں کو قہرِالٰہی عزوجل کانمونہ دکھا دیا ،جس نے سراٹھایانیچا دکھا دیا ۔
    صف شکن حملوں سے جدھر بڑھے ،دشمن کائی کی طرح پھٹ گئے ،دیر تک قتال کرتے اور قتل فرماتے رہے ،پیاس اور ترقی پکڑگئی، واپس تشریف لائے اوردم راست فرما کر پھر حملہ آور ہوئے اوردشمنوں کی جان پر وہی قیامت برپا کر دی ۔چند بار ایساہی ہوا،یہاں تک کہ مرہ بن منقذ عبدی شقی کا نیزہ لگا اور بد بختوں نے تلواروں پر رکھ لیا ۔ جنت علیا میں آرام فرمایا۔نوجوان بیٹےرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش پر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''بیٹے! خداعزوجل تیرے شہید کرنے والے کو قتل کرے ،تیرے بعد دنیا پر خاک ہے ،یہ قوم اللہ عزوجل سے کتنی بے باک اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے حرمتی پر کس قدر جری ہے ۔''پھر نعش مبارک اٹھاکر لے گئے اورخیمہ کے پاس رکھ لی

۱؎ : ان کی والدہ ماجدہ حضرت لیلیٰ بنت ابی مرہ ہیں نہ حضرت شہربانو جیسا کی عوام میں مشہور ہے۔۱۲منہ

پھر عبداللہ بن مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑائی پر گئے اورشہید ہوئے ۔

 (الکامل فی التاریخ،وکان اول من قتل...الخ،ج۳،ص۴۲۸ملخصاً)

    اب اعدا نے چارطرف سے نرغہ کیا ۔اس نرغے میں عون بن عبداللہ بن حضرت جعفر بن طیاراور عبدالرحمن وجعفر ،پسرانِ عقیل نے شہادتیں پائیں ۔ پھر حضرتِ قاسم، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حملہ آورہوئے اورعمروبن سعد بن نفیل مردودکی تلوارکھاکر زمین پرگرے ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوچچا!کہہ کرآوازدی،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیرِغضبناک کی طرح پہنچے، اور عمرومردودپرتلوار چھوڑی ،اس نے روکی ،ہاتھ کہنی سے اڑ گیا ۔وہ چلایا ،کوفے کے سوار اس کی مدد کو دوڑے اور گردوغبارمیں اسی کے ناپاک سینے پر گھوڑوں کی ٹاپیں پڑگئيں۔
    جب گردچھٹی تو دیکھا ،امام حضرت قاسم کی لاش پر فرما رہے ہیں:''قاسم! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرے قاتل رحمتِ الٰہی عزوجل سے دور ہیں، خداکی قسم! تیرے چچا پرسخت شاق گزراکہ تُو پکارے اور وہ تیری فریاد کو نہ پہنچ سکے ۔'' پھر انہیں بھی اپنے سینے پر اٹھا کر لے گئے اور حضرتِ علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر لٹادیا۔اسی طرح یکے بعد دیگرے حضرت عباس اوران کے تینوں بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت ابو بکر اور سب بھائی بھتیجے رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہو گئے ۔اللہ عزوجل انہیں اپنی وسیع رحمتوں کے سائے میں جگہ دے اور ہمیں ان کی برکات سے بہرہ مند فرمائے ۔
    اب امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا رہ گئے ،خیمے میں تشریف لا کر اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو(جو عوام میں علی اصغر مشہور ہیں)گودمیں اٹھاکر

میدان میں لائے، ایک شقی نے تیر مارا کہ گودہی میں ذبح ہوگئے ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا خون زمین پرگرایا اوردعا کی:''الٰہی!عزوجل اگرتونے آسمانی مدد ہم سے روک لی ہے تو انجام بخیر فرما اور ان ظالموں سے بدلہ لے۔''

 (المرجع السابق،ص۴۲۹)

پھول کھِل کھِل کربہاریں اپنی سب دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پر ہے جو بے کھلے مرجھا گئے

اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین

امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوتے ہیں

    حسن وعشق کے باہمی تعلقات سے جو آگاہ ہیں ،جانتے ہیں کہ وصل ِدوست جسے چاہنے والے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ،بغیر مصیبتیں اٹھائے اور بلائیں جھیلے حاصل نہیں ہوتا ۔

رباعی

اے دل بہوس برسرکارے نرسی
تاغم نہ خورے بغم گسارے نرسی
تاسودہ نہ گردی چوحنا در تہ سنگ
ہرگز بکف پائے نگارے نرسی

(یعنی اے دل ہوس سے تو کامیاب نہ ہوگا جب تک تو غم نہ کھائے گا غم گسار تک تیری رسائی نہ ہوگی،جب تک تو مہندی کی طرح پتھر کے نیچے پس نہ جائے گا محبوب کے تلوے تک تیری رسائی نہ ہو سکے گی۔ )

    دل میں نشتر چبھو کرتوڑدیتے اورکلیجے میں چھریاں مارکرچھوڑدیتے ہیں اورپھر تاکیدہوتی ہے کہ اُف کی توعاشقوں کے دفترسے نام کاٹ دیاجائے گا ۔غرض پہلے ہرطرح اطمینان کر لیتے اورامتحان فرما لیتے ہیں ،جب کہیں چلمن سے ایک جھلک دکھانے کی نوبت آتی ہے ۔

رباعی

خوباں دل وجاں بینوا می خواہند
زخمے کہ زنند مرحبا می خواہند
ایں قوم ایں قوم چشم بددُورایں قوم
خون می ریزند وخوں بہا می خواہند

    (یعنی محبوب عشاق سے ایسے دل و جان چاہتے ہیں جو بے نوا ہوں ۔زخم لگا کر انہی سے مرحبا کے طالب ہوتے ہیں۔یہ گروہ چشم بد دور عجیب گروہ ہے خود قتل کرتے ہیں اور پھر خون بہا طلب کرتے ہیں۔)
    اوریہ امتحان کچھ حسینانِ زمانہ ہی کادستورنہیں،حسنِ ازل کی دلکش تجلیوں اور دلچسپ جلوؤں کا بھی معمول ہے کہ فرمایا جاتاہے :

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیۡءٍ مِّنَ الْخَوۡفِ وَالْجُوۡعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الۡاَمَوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ (پ۲،البقرۃ:۱۵۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔
    جب ان کَڑیوں کو جھیل لیا جاتا اور ان تکلیفوں کو برداشت کر لیا جاتا ہے توپھر کیا

پوچھنا؟ سراپردۂ جمال ترسی ہوئی آنکھوں کے سامنے سے اٹھا دیا جاتا اور مدت کے بے قرار دل کوراحت وآرام کا پتلا بنا دیا جاتا ہے ۔اسی بنیاد پرتومیدانِ کربلا میں امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وطن سے چھڑا کر پردیسی بنا کر لائے ہیں اورآج صبح سے ہمراہیوں اوررفیقوں بلکہ گود کے پالوں کو ایک ایک کر کے جدا کر لیا گیا ہے۔کلیجے کے ٹکڑے خون میں نہائے آنکھوں کے سامنے پڑے ہیں ،ہری بھری پھلواڑی کے سہانے اورنازک پھول پتی پتی ہو کر خاک میں ملے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں ،پرواہ ہوتی توکیوں ہوتی؟ کہ راہ دوست میں گھر لٹانے والے اسی دن کے لیے مدینہ سے چلے تھے، جب توایک ایک کوبھیج کر قربان کرادیا اورجواپنے پاؤں نہ جاسکتے تھے ،ان کو ہاتھوں پر لے کر نذرکرآئے ۔ کہاں ہیں وہ ملائکہ جو حضرت انسان کی پیدائش پر چون وچرا کرتے تھے، اپنی جانمازوں اور تسبیح وتقدیس کے مصلوں سے اٹھ کر آج کربلا کے میدان کی سیر کریں اور اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾  (پ۱،البقرۃ:۳۰) کی شاندار تفصیل حیرت کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں۔
    اس دل دکھانے والے معرکے میں امتحان سبھی کا منظور تھا، مگرحسینِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصلی اوراَوروں کا طفیلی، اگرایسا نہ ہوتا توممکن تھا کہ دشمنوں کے ہاتھ سے جوصرف امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے دشمن امام ہی کے خون کے پیاسے تھے، پہلے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرادیا جاتا۔ اللہ اکبر !اس وقت کس قیامت کا دردناک منظر آنکھوں کے سامنے ہے ۔امام مظلومِ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر والوں سے رخصت ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔بیکسی کی حالت ۔۔۔۔۔۔تنہائی کی کیفیت ۔۔۔۔۔۔تین دن کے پیاسے۔۔۔۔۔۔ مقدس جگر پر سینکڑوں تیر کھائے ۔۔۔۔۔۔ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پرجانے کاسامان فرما

رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکی صغیر سن صاحبزادیاں،دنیا میں جن کی ناز برداری کا آخری فیصلہ ان کی شہادت کے ساتھ ہونے والا ہے ،بے چین ہوہو کر رورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔بے کس سیدانیاں، یہاں جن کے عیش،جن کے آرام کا خاتمہ ان کی رخصت کے ساتھ خیربادکہنے والا ہے ،سخت بے چینی کے ساتھ اشکبارہیں۔ اوربعض وہ مقدس صورتیں جن کو بے کسی کی بولتی ہوئی تصویر کہنا ہر طریقے سے درست ہوسکتاہے ۔۔۔۔۔۔جن کا سہاگ خاک میں ملنے والا اور جن کا ہر آسراان کے مقدس دم کے ساتھ ٹوٹنے والا ہے۔۔۔۔۔۔روتے روتے بے حال ہو گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کے اُڑے ہوئے رنگ والے چہرے پر سکوت اور خاموشی کے ساتھ مسلسل اورلگاتار آنسوؤں کی روانی صورتِ حال دکھا دکھا کر عرض کر رہی ہے:

مے روی وگریہ مے آید مرا
ساعتے بنشیں کہ باراں بگزرد

  (یعنی تیرے رخصت ہونے پر مجھے رونا آتا ہے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاؤ تاکہ مجھے قرار آجائے اور میرے آنسو تھم جائیں ۔)
    اس وقت حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل سے کوئی پوچھے کہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ناتواں دل نے آج کیسے کیسے صدمے اٹھائے اوراب کیسی مصیبت جھیلنے کے سامان ہو رہے ہیں۔ بیماری،پردیس ،بچپن کے ساتھیوں کی جدائی، ساتھ کھیلے ہوؤں کا فراق،پیارے بھائیوں کے داغ نے دل کاکیا حال کر رکھا ہے ؟اب ضدیں پوری کرنے والے اور ناز اٹھانے والے مہربان باپ کاسایہ بھی سرِمبارک سے اٹھنے والا ہے اس پرطرّہ یہ کہ ان مصیبتوں ،ان ناقابلِ برداشت

تکلیفوں میں کوئی بات پوچھنے والابھی نہیں ۔

درد دل اٹھ اٹھ کے کس کا راستہ تکتا ہے تو
پوچھنے والا مریض بے کسی کا کون ہے

    اب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں کو کليجے سے لگا کر، عورتوں کو صبر کی تلقین فرما کر آخری دیدار دکھا کر تشریف لے چلے ہیں۔

ازپیش من آں رشک چمن میگزرد
چوں روح روانیکہ زتن میگزرد
حال عجبے روزِ وداعش دارم
من از سرو جاں از من میگزرد

    (یعنی وہ رشک چمن محبوب میری نظروں سے یوں اوجھل ہوتا ہے جیسے روح جسم سے جداہوتی ہے ۔اس کے بچھڑنے پر میرا عجیب حال ہے گویا میں سر سے اور جان مجھ سے جدا ہو رہے ہیں )
    ہائے ! اس وقت کوئی اتنا بھی نہیں کہ رکاب تھام کرسوارکرائے یا میدان تک ساتھ جائے ۔ہاں !کچھ بے کس بچوں کی دردناک آوازیں اور بے بس عورتوں کی مایوسی بھری نگاہیں ہیں ،جو ہر قدم پر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ساتھ ہیں ،امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجوقدم آگے پڑتا ہے، ''یتیمی ''بچوں اور''بے کسی''عورتوں سے قریب ہوتی جاتی ہے۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلقین ، امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہنیں جنہیں ابھی صبر کی تلقین فرمائی گئی تھی ،اپنے زخمی کلیجوں پر صبر کی بھاری سل رکھے ہوئے سکوت کے عالم میں بیٹھی ہیں ،مگر ان کے آنسوؤں کا غیر منقطع سلسلہ، ان کے بے کسی چھائے ہوئے چہروں کا اڑاہوارنگ ،جگرگوشوں کی شہادت ، امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رخصت، اپنی

بے بسی ،گھر بھر کی تباہی پر زبانِ حال سے کہہ رہا ہے ۔

مجھ کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر
قافلہ سارا روانہ ہو گیا

جگر گوشۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پرسوز شہادت

باغ ِجنت کے ہیں بہر مدح خوانِ اہل  بیت
تم کو مژدہ نارکا اے دشمنانِ اہل  بیت
کس زباں سے ہو بیان عزوشانِ اہل  بیت
مدح گوئے مصطفی ہے مدح خوانِ اہل  بیت
ان کی پاکی کاخدائے پاک کرتاہے بیاں
آیۂ تطہیر سے ظاہرہے شانِ اہل  بیت
مصطفی عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہل بیت
ان کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں
قدروالے جانتے ہیں قدرشانِ اہل بیت
مصطفی بائع خریدار اس کا اللہ مشتری
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہل  بیت
رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہل بیت

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہل بیت
حوریں کرتی ہیں عروسانِ شہادت کا سنگار
خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوانِ اہل بیت
ہوگئی تحقیقِ عید دیدِ آبِ تیغ سے
اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہل  بیت
جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہل بیت
اے شبابِ فصلِ گل!یہ چل گئی کیسی ہوا
کٹ رہا ہے لہلہاتا بوستانِ اہل بیت
کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے؟
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہل بیت
خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پردیکھ تو سوکھی زبانِ اہلِ بیت
خاک پر عباس و عثمان علم بردار ہیں
بے کسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلِ بيت
تیری قدرت جانورتک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبا نِ اہلِ بیت
قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر
وارثِ بے وارثان کو کاروانِ اہل بیت

فاطمہ کے لاڈلے کاآخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہل بیت
وقتِ رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہل بيت
ابرِفوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے
فاطمہ کا چاند مہرِ آسمانِ اہل بیت
کس مزے کی لذتیں ہیں آبِ تیغِ یار میں
خاک وخون میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہل بيت
باغِ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا
اے زہے قسمت تمہا ری کشتگانِ اہل بيت
حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سرکھولے ہوئے
آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہل بيت
کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بے کسی
آج کیسا ہے مریضِ نیم جانِ اہل بيت
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہل بيت
سرشہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدانے قدروشانِ اہل بيت
دولت دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دوکانِ اہل بیت

زخم کھانے کو تو  آبِ تیغ پینے کو دیا
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہل بیت
اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہل بيت
اہلِ  بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں

لَعْنَۃُ اللہِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہل بیت
بے ادب گستاخ فرقہ کو سنا دے اے حسنؔ
یوں کہا کرتے ہیں سنی داستان اہل بيت

    اے کوثر! اپنے ٹھنڈے اورخوشگوار پانی کی سبیل تیاررکھ کہ تین دن کے پیاسے تیرے کنارے جلوہ فرمائیں گے ۔...........
    اے طوبیٰ !اپنے سائے کے دامن اور درازکر،کربلا کی دھوپ کے لیٹنے والے تیرے نیچے آرام لیں گے ۔.............
    آج میدانِ کربلا میں جنتوں سے حوریں سنگارکئے ،ٹھنڈے پانی کے پیالے لئے حاضر ہیں ۔۔۔۔۔۔آسمان سے ملائکہ کی لگاتارآمد نے سطح ہوا کو بالکل بھر دیا ہے اورپاک روحوں نے بہشت کے مکانوں کو سونا کر دیا ۔۔۔۔۔۔خود حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ طیبہ سے اپنے بیٹے لاڈلے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قتل گاہ تشریف لائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ریشِ مبارک اورسرِاطہر کے بال گرد میں اٹے ہوئے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تاربندھا ہواہے ۔۔۔۔۔۔ دستِ مبارک میں ایک شیشہ ہے، جس میں شہیدوں کا خون جمع کیاگیاہے ۔۔۔۔۔۔اور اب مقدس دل کے چین پیارے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے

خون بھرنے کی باری ہے۔

بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندے
کہ بوقتِ جان سپردن بسرش رسیدہ باشی

    (یعنی تیرے نیاز مند نے جہان سے کس نازوانداز سے کوچ کیا ہوگا جب جاں سپاری کے وقت تو اس کے سرہانے موجود ہوگا۔)
    غرض آج کربلامیں حسینی میلا لگا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔حوروں سے کہوکہ اپنی خوشبودار چوٹیاں کھول کر کربلا کا میدان صاف کریں کہ تمہاری شہزادی ،تمہاری آقائے نعمت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لال کے شہید کرنے اورخاک پر لٹائے جانے کا وقت قریب آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔رضوان کو خبردوکہ جنتوں کوبھینی بھینی خوشبوؤں سے بسا کر دلکش آرائشوں سے آراستہ کر کے دلہن بنارکھے کہ بزمِ شہادت کادولھا بہتے خون کا سہرا باندھے زخموں کے ہار گلے میں ڈالے عنقریب تشریف لانے والا ہے ۔

ساعت آہ وبکا و بے قراری آگئی
سیدِ مظلوم کی رن میں سواری آگئی
ساتھ والے بھائی بیٹے ہو چکے ہیں سب شہید
اب امامِ بے کس و تنہا کی باری آگئی

    امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شمر خبیث کو خیمۂ اطہر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کرفرمایا:'' خرابی ہو تمہارے لئے اگردین نہیں رکھتے اور قیامت سے نہیں ڈرتے توشرافت سے تو نہ گزرو،میرے اہل بيت علیہم الرضوان سے اپنے جاہل سرکشوں کو روکو،دشمن ادھر سے بازرہے ۔'' اب چارطرف سے امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر، جنہیں شوقِ شہادت

ہزاروں دشمنوں کے مقابلے میں اکیلا کر کے لایا ہے، نرغہ ہوا ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ داہنی طرف حملہ فرماتے تودورتک سواروں اور پیادوں کا نشان نہ رہتا ،بائیں جانب تشریف لے جاتے تودشمنوں کو میدان چھوڑ کربھاگنا پڑتا ۔
    خداکی قسم!وہ فوج اس طرح ان کے حملوں سے پریشان ہوتی جیسے بکریوں کے گلہ پرشیر آپڑتا ہے ،لڑائی نے طول کھینچا ہے ،دشمنوں کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں، ناگاہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھوڑابھی کام آگیا ،پیادہ ایسا قتال فرمایا کہ سواروں سے ممکن نہیں ۔
    تین دن کے پیاسے تھے ایک بدبخت نے فرات کی طرف اشارہ کر کے کہا:''وہ دیکھئے کیساچمک رہا ہے ،مگرتم اس میں سے ایک بوند نہ پاؤگے یہاں تک کہ پیاسے ہی مارے جاؤ گے ۔''فرمایا:''اللہ!عزوجل تجھ کو پیاسا قتل کرے ۔''فوراً پیاس میں مبتلا ہوا، پانی پیتا، پیاس نہ بجھتی یہاں تک کہ پیاساہی مرگیا ۔حملہ کرتے اور فرماتے:'' کیا میرے قتل پر جمع ہوئے ہو ؟ہاں ہاں،خداکی قسم !میرے بعدکسی کو قتل نہ کروگے ،جس کا قتل میرے قتل سے زیادہ خداعزوجل کی ناخوشی کا سبب ہو ،خداکی قسم !مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ذلت سے مجھے عزت بخشے اورتم سے وہ بدلہ لے جوتمہارے خواب و خیال میں بھی نہ ہو،خداکی قسم !تم مجھے قتل کرو گے تو اللہ عزوجل تم میں پھوٹ ڈالے گا اور تمہارے خون بہائے گا اور اس پرراضی نہ ہو گا ،یہاں تک کہ تمہارے لئے دکھ دینے والا عذاب چند درچند بڑھائے گا۔''

            (الکامل فی التاریخ،المعرکۃ،ج۳،ص۴۳۱ وغیرہ)

   جب شمر خبیث نے کام نکلتا نہ دیکھا ،لشکرکو للکارا:''تمہاری مائیں تم کو پیٹیں کیا انتظار کر رہے ہو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرو ۔''اب چارطرف سے ظلمت کے ابراور

تاریکی کے بادل فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چاندپر چھا گئے ۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائيں شانہ مبارک پر تلوار ماری ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھک گئے ہیں ....زخموں سے چور ہیں....۳۳زخم نیزے کے ۳۴ گھاؤ تلواروں کے لگے ہیں ....تیروں کا شمار نہیں....اٹھنا چاہتے ہیں اورگرپڑتے ہیں ....اسی حالت میں سنان بن انس نخعی شقی ناری جہنمی نے نیزہ مارا کہ وہ عرش کاتارا زمین پرٹوٹ کر گرا....سنان مردودنے خولی بن یزید سے کہا:سرکاٹ لے ۔اس کا ہاتھ کانپا۔ سنان ولد الشیطان بولا:''تیراہاتھ بےکارہو'' اور خودگھوڑے سے اترکر محمد رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے ،تین دن کے پیاسے کوذبح کیا اورسرمبارک جداکرلیا ۔شہادت جو دلہن بنی ہوئی سرخ جوڑا،جنتی خوشبوؤں سے بسائے اسی وقت کی منتظر بیٹھی تھی ،گھونگھٹ اٹھا کربے تابانہ دوڑی اور اپنے دولھا حسین شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گلے میں باہیں ڈال کر لپٹ گئی ......

فَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی اَعْدَائِہٖ وَاَعْدَائِھِمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔

    اس پربھی صبر نہ آیا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس مبارک اتارکر آپس میں بانٹ لیا۔ عداوت کی آگ اب بھی نہ بجھی ،اہل بیت علیہم الرضوان کے خیموں کو لوٹا ،تمام مال اسباب اورمحمد رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادیوں کا زیور اتارلیا ،کسی بی بی کے کان میں ایک بالی بھی نہ چھوڑی۔
    اللہ عزوجل واحد قہارکی ہزارہزار لعنتیں ان بے دینوں کی شقاوت پر ،زیوردرکنار اہل بیت کے سروں سے ڈوپٹے تک ........،اب بھی مردودوں کے چین نہ پڑا ،ایک

شقی ناری جہنمی پکارا:''کوئی ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم کو گھوڑوں سے پامال کردے ؟'' ..... دس مردودگھوڑے کداتے دوڑے اورفاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گودکے پالے ،مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سینے پرکھیلنے والے ،کے تن ِمبارک کو سموں سے روندا کہ سینہ و پشتِ نازنین کی تمام ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں .....

صَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی اَعْدَائِہٖ وَاَعْدَائِھِمِ الظّٰلِمِیْنَ۔

         (المرجع السابق،ص۴۳۲)

شہادت کے بعد کے واقعات

   کبڑے کتے شمر خبیث نے چاہا کہ امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھی شہید کرے، حمید بن مسلم بولا: ''سبحان اللہ! کیا بچے بھی قتل کئے جائیں گے ؟''....ظالم باز رہا۔                                 (المرجع السابق،ص۴۳۳)

   پھر سرِمبارک امام مظلوم وشہدائے مرحوم علیہم الرضوان خولی بن یزید اور حمید بن مسلم کے ساتھ ابن زیاد کے پاس بھیجے گئے ۔جب کوفے آئے مکان بند پایا۔خولی سر ِمبارک لیکر گھر آیا اور اپنی عورت نوارسے کہا:'' میں تیرے لئے وہ چیز لایا ہوں جو عمر بھر کو غنی کردے۔'' اس نے پوچھا: ''کیا ہے؟''کہا ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسر'' بولی: ''خرابی ہو تیرے لئے ،لوگ چاندی سونا لے کر آتے ہیں اور تُورسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے کا سرلایا ۔خداکی قسم !میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی ۔'' یہ بی بی کہتی ہے :'' میں نے رات بھر دیکھا کہ ایک نورِ عظیم سرِمبارک سے آسمان تک بلند ہے اور سپید پرندسرِ اقدس پر قربان ہورہے ہیں ۔''   پھر سرِمبارک امام مظلوم وشہدائے مرحوم علیہم الرضوان خولی بن یزید اور حمید بن مسلم کے ساتھ ابن زیاد کے پاس بھیجے گئے ۔جب کوفے آئے مکان بند پایا۔خولی سر ِمبارک لیکر گھر آیا اور اپنی عورت نوارسے کہا:'' میں تیرے لئے وہ چیز لایا ہوں جو عمر بھر کو غنی کردے۔'' اس نے پوچھا: ''کیا ہے؟''کہا ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسر'' بولی: ''خرابی ہو تیرے لئے ،لوگ چاندی سونا لے کر آتے ہیں اور تُورسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے کا سرلایا ۔خداکی قسم !میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی ۔'' یہ بی بی کہتی ہے :'' میں نے رات بھر دیکھا کہ ایک نورِ عظیم سرِمبارک سے آسمان تک بلند ہے اور سپید پرندسرِ اقدس پر قربان ہورہے ہیں ۔''

 (المرجع السابق،ص۴۳۴)

   جب سر مبارک ابن زیاد خبیث کے پاس لایا گیا ،اس کے گھر کے درودیوار سے خون بہنے لگا ۔وہ شقی چھڑی سے دندانِ مبارک کو چھو کر بولا:'' میں نے ایسا خوبصورت نہ دیکھا ،دانت کیسے اچھے ہیں ۔''زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف رکھتے تھے، فرمایا: ''اپنی چھڑی ہٹا ،میں نے مدتوں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ان ہونٹوں کو چومتے اورپیار کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔''یہ کہہ کر رونے لگے ۔وہ خبیث بولا: ''تمہیں رونا نصیب ہو، اگر سٹھ نہ گئے ہوتے توگردن ما ردیتا ۔''یہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس مردود کے درباریوں سے فرمایا:'' تم نے فاطمہ کے بیٹےرضی اللہ تعالیٰ عنہما کو قتل کیا اور مرجانہ کے جنے کو امیر بنا یا ،آج سے تم غلام ہو ،خداکی قسم! تمہارے اچھے اچھے قتل کئے جائيں گے اورجو بچ رہیں گے غلام بنا لئے جائیں گے ۔دورہوں وہ جو ذلت وعارپر راضی ہوں ۔''پھر فرمایا ''اے ابنِ زیاد !میں تجھ سے وہ حدیث ضرور بیان کروں گا جو تجھے غیظ وغضب کی آگ میں پھونک دے ۔میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھاد ہنی ران مبارک پر حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بٹھایا اور بائیں پر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور دستِ اقدس ان کے سروں پر رکھ کر دعا فرمائی: ''الٰہی!عزوجل میں ان دونوں کو تجھے اور نیک مسلمانوں کو سونپتا ہوں ''۔اے ابن زیاد! دیکھ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امانت کے ساتھ تونے کیاکیا ؟''ادھر ظالموں نے عابد بیمار کے گلے میں طوق ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالیں اور بیبیوں کو اونٹوں پرسوار کرا کر، دو روز بعد کربلاسے کوچ کیا۔

سوار گھوڑوں پراعداء پیادہ شہزادہ
الٰہی کیسا زمانے نے انقلاب کیا

   جب یہ مظلوموں کا لٹا ہواقافلہ شہیدوں کی لاشوں پر گزرا کہ بے گورو کفن میدان میں پڑے ہیں ،حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے تابانہ چلا اٹھیں: ''یا رسول اللہ !عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضور پر ملائکہ آسمان کی درودیں، حضور! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ ہیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ....میدان میں لیٹے ....سر سے پاؤں تک خون میں لپٹے.... تمام بدن کے جوڑ کٹے اورحضور کی بیٹیاں قیدی ہوئیں اور حضور کے بچے مقتول پڑے ہیں جن پر ہوا خاک اڑاکر ڈالتی ہے ۔......''

   (المرجع السابق)

    جب یہ مظلوم قافلہ، ابن زیاد بد نہاد کے پاس پہنچا ،اس نے عابد مظلوم سے بحث کی ،مسکت جواب پانے پر حیران ہوکر بولا: ''خداکی قسم !تم انہیں میں سے ہو ۔''پھر ایک شخص سے کہا:''دیکھ تویہ بالغ ہیں ''اس پر مری بن معاذ احمری شقی نے سید مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قریب جا کر غور سے دیکھا،کہا: ''ہاں جوان ہیں ۔''خبیث بولا:'' انہیں بھی قتل کر۔''حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہابے تاب ہو کر مظلوم بھتیجے کے گلے سے لپٹ گئیں اور فرمایا: '' ابن زیاد بس کر !ابھی ہمارے خون سے تو سیراب نہ ہوا ؟ہم میں تونے کسے باقی چھوڑا ہے ؟میں تجھے خداعزوجل کا واسطہ دیتی ہوں کہ..... اس بچے کو قتل کرے تو اس کے ساتھ مجھے بھی مار ڈال ۔''
    عابد مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' اے ابن زیاد! ان بے کس عورتوں کا کون نگہبان رہے گا؟دین ودیانت وحقوق رسالت تو برباد گئے،آخرتجھے ان سے کچھ قرابت بھی ہے، اسی کا خیال کرکے ان کے ساتھ کوئی خداترس بندہ کر دینا ،جو اسلامی پاس کے ساتھ انہیں مدینہ پہنچاآئے ۔''حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حالت دیکھ کر خبیث بولا: ''خون کی شرکت بھی کیا چیز ہے میں یقین کرتاہوں کہ یہ بی بی یہی چاہتی

ہے کہ اس لڑکے کو قتل کروں توانہیں بھی قتل کردوں ،خیر لڑکے کو چھوڑ دو کہ اپنے ناموس کے ساتھ رہے۔'' (المرجع السابق،ص۴۳۵)
Previous Page

0 comments:

Post a Comment

Twitter Delicious Facebook Digg Stumbleupon Favorites More